سوال:
السلام علیکم! مفتی صاحب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ
میری والدہ کے نام ایک فلیٹ ہے، اس کو سیل کر کر کے پلاٹ لینے کا ارادہ ہے۔ وہ بھی والدہ کے نام پر ہوگا، لیکن اس کو بنانے میں جو پیسہ میں خود اپنے ذاتی رقم میں سے لگاؤں گا تو کیا تقسیم وراثت کے وقت مجھے یہ رقم الگ سے مل جائے گی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ میری والدہ یہ کہتی ہیں کہ میں وصیت کردوں گی کہ میرے بعد یہ پورا گھر میرے بیٹے کے نام یعنی میرے نام ہوگا تو کیا اس طرح کی وصیت شرعی طور پر درست ہے؟
برائے مہربانی دونوں کا جواب دے دیجیے گا۔ جزاک اللّہ
جواب: (1) واضح رہے کہ اگر آپ والدہ کے مکان بنانے میں قرض کی صراحت کے ساتھ لگائیں گے تو آپ کو اتنی رقم ملے گی اور اگر شراکت کی صراحت کے ساتھ پیسے لگائیں تو آپ کو اتنا فیصد مکان میں حصہ یا رقم ملے گی اور اگر قرض یا شراکت کی صراحت کے بغیر لگائیں گے تو آپ کی لگائی ہوئی رقم تعاون اور گفٹ شمار ہوگی اور آپ کو میراث کی تقسیم کے وقت وہ رقم نہیں ملے گی۔
(2) واضح رہے کہ اپنے وارث کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے، لہذا ورثاء پر ایسی وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے۔
ہاں! اگر تمام ورثاء بخوشی اس وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں تو اس کی اجازت ہے، ورنہ ہر وارث کو اس کا وہی حصہ دینا ضروری ہے، جو شریعت نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کے حق میں کی گئی وصیت دوسرے ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، اگر وہ اس کو نافذ کرنے پر رضامند ہوئے تو آپ کے حق میں وصیت نافذ ہوگی، ورنہ آپ کو اپنی والدہ کی میراث میں سے صرف آپ کا شرعی حق ملے گا، باقی دیگر ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء في الوصیۃ للوارث)
عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: "إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ".
مشکاۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 3074)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "لا وصیۃ لوارث إلا أن یشاء الورثۃ".
عمدۃ القاری: (باب لا وصیۃ للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
تنقيح الفتاوى الحامدية: (155/2، ط: دار المعرفہ)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی