عنوان: عقدِ نکاح میں نماز فجر کى پابندى کو اور قرآن کریم کے مصحف کو بطور حقِ مہر مقرر کرنے کا حکم (15826-No)

سوال: مفتی صاحب! کسی کی شادی ہوئی تو بیوی نے شوہر سے مہر میں فجر کی با جماعت نماز پڑھنے کا مطالبہ کیا اور کہا یہی میرا مہر ہوگا تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ اور ایک شادی ہوئی ہے جس میں شوہر نے اپنی بیوی کو مہر میں قرآن پاک دیا ہے، ان دونوں طریقوں پر روشنی ڈالیں۔ مہربانی ہوگی۔

جواب: واضح رہے کہ شرعاً حقِ مہر کے لیے مال ہونا ضرورى ہے، ارشاد بارى تعالى ہے: وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ
ترجمہ: تمام عورتوں کے بارے میں یہ حلال کر دیا گیا ہے کہ تم اپنا مال (بطور مہر) خرچ کر کے انہیں (اپنے نکاح میں لانا) چاہو"۔ (سورۃ النساء: آیت نمبر: 24)
لہذا جو چیز شرعاً وعرفاً مال بننے کى صلاحیت نہ رکھتى ہو، اسے بطور حقِ مہر مقرر کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے زوجین کى رضامندى سے ہر وہ چیز بطور مہر مقرر کى جاسکتى ہے جو "مالِ مُتَقَوَّمْ" ہو، یعنی وہ چیز شریعت کى نظر میں قیمت والی ہو یا مسلمانوں کے عرف میں اسے قیمت والا مال سمجھا جاتا ہو اور اس چیز کی کم از کم مقدار دس درہم کى قیمت کے برابر ہو، دس درہم کا وزن 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ (30 گرام 618 ملى گرام) چاندى ہے، اس مقدار سے کم کى مالیت والى چیز کو مہر میں دینا شرعاً درست نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال میں مذکور مہر کى دونوں صورتوں کا جواب حسب ذیل ہے:
1) چونکہ نماز کی پابندی کرنا شرعاً مال نہیں ہے، اس لیے فجر کى نماز کى پابندى کو بطور مہر مقرر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ ایسی صورت میں نکاح تو منعقد ہو جائے گا، لیکن شوہر کے ذمہ مہرِ مثل دینا واجب ہوگا۔
2) قرآن کریم کا مصحف "مالِ مُتَقَوَّمْ" ہے، اس کی خرید وفروخت جائز ہے، لہذا اگر مصحف اتنی قیمت کا ہو کہ اس کى مالیت دس درہم کى مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اسے حق مہر کے طور پر مقرر کرنا جائز ہے اور اس صورت میں نکاح بھى منعقد ہو جائے گا، لیکن عام طور سے اس کا عرف ورواج نہیں پایا جاتا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ نقدى یا سونا چاندى وغیرہ کے ذریعے حق مہر ادا کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (كتاب النكاح، فصل بيان أدنى المقدار الذي يصلح مهرا، 276/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"وأما بيان أدنى المقدار الذي يصلح مهرا فأدناه عشرة دراهم أو ما قيمته عشرة دراهم، وهذا عندنا". ((ولنا) قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24] شرط سبحانه وتعالى أن يكون المهر مالا. والحبة والدانق ونحوهما لا يعدان مالا فلا يصلح مهرا، وروي عن جابر - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا مهر دون عشرة دراهم» ، وعن عمر وعلي وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: لا يكون المهر أقل من عشرة دراهم، والظاهر أنهم لأنه باب لا يوصل إليه بالاجتهاد والقياس؛ ولأنه لما وقع الاختلاف في المقدار يجب الأخذ بالمتيقن وهو العشرة. وأما الحديث ففيه إثبات الاستحلال، إذا ذكر فيه مال قليل لا تبلغ قيمته عشرة".

تبيين الحقائق: (145/2، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"قال - رحمه الله - (ويجب مهر المثل في الشغار وخدمة زوج حر للأمهار وتعليم القرآن) أي يجب مهر المثل لبطلان التسمية في هذه الصور الثلاث في نكاح الشغار وفي التزويج على خدمة الزوج الحر وعلى تعليم القرآن أما نكاح الشغار وهو أن يزوج الرجل ابنته أو أخته أو أمته على أن يزوجه الآخر ابنته أو أخته أو أمته ليكون أحد العقدين عوضا عن الآخر؛ فلأنه سمى ما لا يصلح مهرا إذ المسمى ليس بمال فوجب مهر المثل كما إذا تزوجها على خمر أو ميتة".

رد المحتار: (كتاب الوقف، 352/4، ط: دار الفکر)
"وفي شرح الملتقى: وجاز ‌بيع ‌المصحف المخرق وشراء آخر بثمنه".

والله تعالى أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى

Print Full Screen Views: 98 Apr 17, 2024
aqde nikah mein namaz e fajar ki pabandi ko or quran kareem ke mashaf ko bator haq meher muqarrar karne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.