سوال:
مفتی صاحب! ملازم نے اپنا انشورنس نہیں کروایا ہے اور نہ ہی کمپنی جبراً ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی کرتی ہے، بلکہ کمپنی از خود اپنے تمام ملازمین کی انشورنس کرواتی ہے اور ہر ماہ کی پریمیم (قسط) کمپنی خود ادا کرتی ہے اور ملازم کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو رقم دیتی ہے، اس رقم کا کیا حکم ہے؟
تنقیح:
محترم یہ بتائیں کہ انشورنس کی کونسی قسم ہے، ہیلتھ (میڈیکل) انشورنس ہے یا کچھ اور ہے؟ نیز اس بات کی بھی وضاحت کریں کہ یہ رقم وفات کے بعد ورثاء کو ہی ملتی ہے یا ملازم کو زندگی میں اس کے ملنے کی کوئی صورت بھی ہے؟
اس وضاحت کے بعد ان شاءاللہ آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح: ہیلتھ انشورنس ہے، وفات کے بعد رقم ورثاء کو ملتی ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر ملازم نے خود اپنا انشورنس نہیں کروایا اور نہ ہی اس کی تنخواہ سے اس کی مرضی سے انشورنس کی رقم کاٹی جاتی ہے، بلکہ کمپنی نے از خود ملازم کے لیے انشورنس پالیسی لی ہے تو ایسی صورت میں کمپنی کی طرف سے ملنے والی رقم عطیہ اور انعام ہوگا اور اضافی رقم سُود نہیں ہوگی، کیونکہ ملازم نے خود انشورنس یا سود کا معاملہ نہیں کیا ہے، بلکہ سب کچھ کمپنی نے اپنی طرف سے کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278، 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
فقه البیوع: (1066/2، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
أما عملیة التأمین، فعملیة تشتمل علی الربوا أو علی الغرر أو عليهما۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی