سوال:
مفتی صاحب! اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے غصہ میں کہا کہ اگر تم اپنی بہن کے گھر گئی تو تمہیں طلاق، پھر وہ ایک سال تک نہیں گئی، پھر شوہر نے کہا کہ میں نے تو تمہیں صرف اس وقت جانے سے منع کیا تھا، اب تم جاسکتی ہو، اس کی بیوی اپنی بہن کے گھر چلی گئی تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
جواب: اگر یہ الفاظ "تم اپنی بہن کے گھر گئی تو تمہیں طلاق" کہتے وقت واقعتاً شوہر نے بیوی کو صرف اسی وقت جانے سے منع کرنے کی نیت کی تھی اور بیوی فوری طور پر اپنی بہن کے گھر نہیں گئی تو پوچھی گئی صورت میں ایک سال بعد بہن کے گھر جانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
لیکن اگر یہ الفاظ کہتے وقت شوہر کی کوئی نیت نہیں تھی تو ایسی صورت میں کسی بھی وقت بہن کے گھر جانے سے ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی اور یہ شرط ختم ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ مفتی شرعاً سوال کے مطابق جواب دینے کا پابند ہے، سوال کے سچ اور جھوٹ کا ذمہ دار نہیں ہوتا، بلکہ یہ ذمہ داری سائل پر عائد ہوتی ہے، اگر غلط بیانی کرکے جواب حاصل کرلیا گیا تو اس سے حرام حلال نہیں ہوتا، بلکہ بدستور حرام ہی رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (342/4، ط: دار الكتاب الإسلامي)
امرأة تهيأت للخروج فحلف لا تخرج فإذا جلست ساعة ثم خرجت لا يحنث؛ لأن قصده أن يمنعها من الخروج الذي تهيأت له فكأنه قال إن خرجت أي الساعة،.......، وأشار المصنف إلى أنه لو قال لامرأته عند خروجها من المنزل إن رجعت إلى منزلي فأنت طالق ثلاثا ثم جلست فلم تخرج زمانا ثم خرجت ورجعت والرجل يقول نويت الفور فالظاهر أنه يصدق؛ لأنه لو قال إن خرجت، ولا نية له ينصرف إلى هذه الخرجة فكذا إذا قال إن رجعت ونوى الرجوع بعد هذه الخرجة كان أولى أن ينصرف إلى الرجوع عن هذه الخرجة كذا في المحيط.
الفتاوى الهندية: (442/1، ط: دار الفکر)
رجل قال لامرأته عند خروجها: إن رجعت إلى منزلي فأنت طالق ثلاثا فجلست ولم تخرج زمانا ثم خرجت ثم رجعت فقال الزوج كنت نويت الفور قال بعضهم: لا يصدق قضاء وقال بعضهم: يصدق وهو الصحيح كذا في فتاوى قاضي خان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی