سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے کسی کو ہزار روپے قرض کے طور پر دیے ہیں، لیکن وہ بندہ باوجود مطالبے کے واپس نہیں کر رہا تو تیسرے شخص نے اس سے کہا کہ تم مجھ سے نو سو روپے لے لو، اس سے ہزار وصول کرنا میرا کام ہے۔ کیا یہ معاملہ درست ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں تیسرے شخص کا اصل قرض ایک ہزار روپے کے بدلے نو سو روپے قرض خواہ کو ادا کرکے مقروض سے پورے ہزار روپے وصول کرنا در حقیقیت قرض کو اس تیسرے شخص پر بیچنا ہے، جبکہ جس شخص پر قرض لازم نہ ہو، اس کو قرض بیچنا (جسے فقہی اصطلاح میں "بیع الدین من غیر من علیہ الدین" کہا جاتا ہے) شرعی طور پر ناجائز ہے، نیز اس میں رقم کی کمی بیشی کرنے کی وجہ سے سود بھی لازم آتا ہے جو کہ حرام ہے، لہٰذا سوال میں مذکورہ طریقے پر معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (كتاب البيوع، 148/5، ط: دار الكتب العلمية)
ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع، ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا؛ لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيع، ويجوز بيعه ممن عليه؛ لأن المانع هو العجز عن التسليم، ولا حاجة إلى التسليم ههنا، ونظير بيع المغصوب أنه يصح من الغاصب، ولا يصح من غيره إذا كان الغاصب منكرا، ولا بينة للمالك.
تکملة فتح الملهم: (342/1، ط: داراحیاء التراث العربی بیروت)
الحقوق التی تثبت لصاحبها بعقود یعقدها هو أوٖغیره مثل رجل باع شیأ فثبت له حق استیفاء الثمن أو أقرض أحدا فثبت له حق استیفاء الدین أو أعلنت الحکومة له بجائزة فثبت له حق استیفائها فبیع مثل هذه الحقوق لیس بیعا للحقوق فی الحقیقة، وإنما هو بیع لمال یتعلق به ذلک الحق وإنه لا یجوز عند الحنفیة لکونه بیع ما لیس عند الإنسان ویدخل فی هذا القسم بیع العطایا والأرزاق والبراآت وبیع حظوظ الأئمة وبیع الجامکیة.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی