سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص غصے میں آکر کہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں تو اس کے متعلق کیا حکم ہے، کیا وہ یہ جملہ کہنے سے کافر ہوگیا ہے؟
تنقیح: محترم اس بات کا جواب دیں کہ غصے میں ان الفاظ کو کہنے کا سبب کیا تھا؟
جواب تنقیح:اصل واقعہ یہ ہوا تھا کہ کہ اس بندے کی بیوی اپنے ماں باپ کے گھر گئی تھی اور واپس نہیں آئی، کچھ دن کے بعد بندہ اپنی بیوی کو لینے گیا تو ساس اور بیوی سے لڑائی ہوئی، کچھ دیر بعد بیوی نماز پڑھنے لگی تو بندے نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا اور بولا چلو چلتے ہیں تو ساس نے کہا کیا آپ مسلمان نہیں ہو نماز تو پوری کرنے دو تو اس نے کہا میں مسلمان نہیں ہوں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں ساس کی مراد یہ ہے کہ تم اسے نماز سے کیوں روک رہے ہو؟ تمہارا یہ کام مسلمانوں والا نہیں اور شوہر کا اس بات کی تصدیق کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ "ہاں میرا یہ کام مسلمانوں والا نہیں"۔ البتہ شوہر پر لازم ہے کہ وہ توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لیے ایسے الفاظ کہنے سے سخت اجتناب کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الخانیة: (کتاب السیر، باب ما یکون کفرا من المسلم وما لا یکون، 425/3، ط: دار الفکر)
رجل ضرب امرأته فقالت المرأة: لست بمسلم، فقال الرجل: هب أني لست بمسلم، قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى: لا يصير كافرا بذلك، فقد حكي عن بعض أصحابنا أن رجلا لو قيل له :ألست بمسلم؟ فقال: لا ،لايكون ذلك كفرا ؛لأن قول الناس: لیس بمسلم معناہ: أن أفعالہ لیست من أفعال المسلمین. وقال الشیخ الامام الزاهد رحمه الله تعالی: اذا لم یکن ذلك کفرا عند بعض الناس فقوله: هب أني لست بمسلم أبعد من ذلك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی