سوال:
ہمارے ادارے میں پراویڈنٹ فنڈ آپشنل ہے، اگر کٹوانا چاہیں تو کٹوائیں، ورنہ نہیں . جتنی اماؤنٹ ہماری سیلری سے کٹتی ہے، اتنی ہی ادارہ ڈالتا ہے، اس میں یہ بھی اوپشن ہے کہ آپ سود لینا چاھتے ہیں یا نہیں؟ جو لوگ سود نہیں لینا چاھتے، ان کو ملازمت کے ختم ہونے میں جتنی رقم جمع ہوئی ہوتی ہے، وہ دیدی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کے ہماری یہ رقم جو جمع ہورہی ہے، وہ بینک میں رکھوائی جاتی ہے اور سود کمایا جاتا ہے، پِھر جو لوگ سود لینے کے خواہشمند ہوتے ہیں، ان کو دے دیا جاتا ہے، تو اِس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ لوگ کہتے ہیں کہ سود میں معاونت تو ہورہی ہے، اگرچہ آپ اپنی رقم پہ سود نا بھی کماؤں پِھر بھی ؟
جواب: واضح رہے کہ اجرت پرجب تک اجیر کا قبضہ نہ ہوجائے، اس وقت تک وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ صرف ایک حق ہوتا ہے، جس کے مطالبہ کا ملازم کو اختیار ہوتا ہے، پراویڈنٹ فنڈ کی رقم چونکہ نہ ملازم کی مملوک ہوتی ہے اور نہ ہی فی الحال اُس کے تصرفات اِس میں نافذ ہیں، تو محمکہ اس رقم کے ساتھ جو معاملہ کر رہا ہے، اپنی ملک میں کررہا ہے، ملازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا اس رقم میں مکمل ذمہ داری محکمہ پر ہی عائد ہوتی ہے، ملازم پر نہیں، لہذا جو سود وغیرہ کا معاملہ محکمہ کرتا ہے، اس کا گناہ ملازم پر نہیں ہے، محکمہ پر ہے۔
یہ بالکل اسی طرح ہے، جیسے آپ اپنے ادارے سے ماہانہ تنخواہ جب تک وصول نہ کریں، تب تک وہ ایک حق ہے، جو آپ نے وصول کرنا ہے ،اب جب تک وہ رقم ادارے کے اکاؤنٹ میں پڑی ہے، اس کے آپ نہیں، بلکہ ادراہ مالک ہے، اگر وہ اسے اپنی مرضی سے کہیں غلط جگہ میں خرچ کرتا ہے، تو اس میں آپ گنہگار نہیں ہونگے، لہذا صورت مسئولہ میں کٹوتی چاہے جبری ہو یا اختیاری، ہر صورت میں ادارے کا، اس رقم کو سود میں استعمال کرنے سے آپ گنہگار نہیں ہونگے۔
(جواہرالفقہ،بتغییر یسیر: ٢٥٨/٣، مکتبہ دارالعلوم کراچی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الزمر، الایة: 7)
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ....الخ
و قوله تعالی: (حم سجدۃ، الایة: 46)
مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ o
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی