عنوان: بیرون ملک میں ملازمت کى غرض سے مقیم حضرات کا ان میں سے کسى فرد کى وفات پر ہونے والے اخراجات کے لیے وقف فنڈ قائم کرنا (15853-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا ہمارا درجہ ذیل شرائط پر مبنی مردہ فنڈ درست ہے؟
گنڈیالی بالا متحدہ عرب امارات
(شرائط وضوابط )
1: انٹری فیس 100 درہم ہے۔ یہ 100 درہم ہر کارکن کمیٹی کے لیے وقف کرے گا اور جب وہ کمیٹی سے نکلے گا تو یہ رقم اسے واپس نہیں ملی گی۔
2: فوتگی پر 100 درہم جمع (وقف ) کرے گا۔
3: فی الحال سالانہ کوئی رقم جمع نہیں کرے گا، اگر فنڈ کم ہوتا ہے تو بعد میں سالانہ وصولی پر مشورہ ہو سکتا ہے۔
4: اگر کوئی فرد متحدہ عرب امارات چھوڑ کر پاکستان چلا جائے اور چھ مہینوں کے درمیان میں وفات پائے تو اس کو فنڈ ملے گا۔
5: اگر کوئی فرد متحدہ عرب امارات میں وفات پاگیا اور فنڈ میں موجود فرد میں سے کوئی بھی پاکستان میں یا کسی اور ملک میں ہو، عمرہ کرنے یا حج کرنے یا وغیرہ تو وہ فنڈ جمع کرے گا ۔
6: اگر کوئی بندہ کینسل چلا جائے اور دبئی میں کسی کی فوتگی ہوتی ہے تو کینسل ممبر پیسہ نہیں دے گا۔
7: جو بندہ وفات ہو جائے، اس کا سنبھالنے کا ذمہ داری ایڈمن ممبران اگر فارغ ہو تو وہ بندوبست کریں گے۔ اگر کسی وجہ سے وہ فارغ نہ ہو تو پھر دوسرے ممبر خدمات سرانجام دیں گے اور اس خدمات کی اس ممبران کو معاوضہ دیا جائے گا جو خدمات سرانجام دیں۔
8: فنڈ کو رکھنے کے لیے بینک اچھا ہے یا کسی فرد کے ساتھ یہ ایڈمن فیصلہ کرے گا۔ فنڈ جس کے پاس بھی ہوگا، ہر مہینے وہ گروپ میں فنڈز کا تفصیل شیئر کرے گا، تاکہ کسی کو شک و شبہات نہ ہو، فنڈ کا پیسہ کسی بھی بزنس یا اور کام کے لیے استعمال نہ ہوگا۔
9: جس بندے کا ویزہ کنسل ہو یا وہ فنڈ چھوڑ کر نہیں کرتا یا پاکستان چلا گیا تو آدمی کو چاہیے جو مردہ فنڈ (رقم) جمع کیا ہیں، وہ یہ نیت کرے کہ یہ رقم جو میں نے جمع کیا ہے، وہ میں مردہ فنڈ میں واقف کرتا ہوں، تاکہ ہمیں جائز ہوجائے۔
برائے مہربانی اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں اور جو جائز طریقے کار وہ بھی بتادیں۔
تنقیح:
محترم! آپ نے مردہ فنڈ کے نام سے جو شرائط نامہ ارسال فرمایا ہے، اس کے بارے میں درج ذیل امور کى وضاحت فرما دیں:
1- اس فنڈ کے مقاصد اور مصارف کیا ہیں؟
2- فنڈ جمع کرنے کى ضرورت کیوں پیش آ رہى ہے؟
3-یہ فنڈ ماہانہ بنیاد پر ہے یا جب کسى کا انتقال ہوگا تب اس فنڈ میں رقم جمع کروانى ہو گى؟
4-فنڈ کى بنیادى شرط یہ بیان کى گئى ہے کہ ہر شخص فنڈ دیتے وقت اس کو وقف کرے گا، یہاں وقف کس مقصد کے لیے کرے گا، اس کى وضاحت نہیں کى گئى ہے، اس کى وضاحت فرما دیں۔
5- کیااس فنڈ میں زکاۃ یا صدقات واجبہ کى مد میں بھى رقم جمع کى جا سکتى ہے؟ اس کى وضاحت فرما دیں۔
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى
جواب تنقیح:
1۔فنڈ جمع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی پاکستانی ساتھی کا انتقال یہاں دوبی میں ہوتا ہے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام اور پاکستان ان کے گھر والوں تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔اور اس کے لیے ساتھ میں جو اگر یہاں دبی میں کوئی رشتہ دار ہوتا ہے تو اس کے میت کے ساتھ جانے کے لیے ٹکٹ کا انتظام کیا جائےاور جو رقم بچ جائے تو وہ اس کے اہل وعیال بال وبچوں کو دی جائے۔
2.فنڈ جمع کرنے کی ضرورت اس لیے آتی ہے کہ یہاں پردیس میں کوئی ہوتا نہیں ہے۔
3۔جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس وقت رقم جمع کی جاتی ہے ماہانہ یا سالانہ رقم جمع نہیں کی جاتی۔
4۔ وقف کا مقصد بھی جیسے واضح کیا گیا ہے کہ وہ میت کے کفن و دفن اور پاکستان تک پہنچانے کا خرچہ برداشت کرنا ہے۔
5۔اس میں زکوٰۃ و صدقات واجبہ نہیں ہوتی۔

جواب: سوال میں بیان کردہ تفصیل معلوم ہوتا ہے کہ بیرون ملک ملازمت کے لیے مقیم حضرات میں سے جب کسى کى وفات ہوتى ہے تو اس صورت میں میت کے وہاں تجہیز وتکفین اور تدفین کے لیے وطن پہنچانے کے لیے سفر کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ایک ملازمت پیشہ شخص کے لیے اکیلے ان کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے، بعض اوقات سارى جمع پونجى اسى میں خرچ ہو جاتى ہے تو ایسى صورت حال میں اگر وہاں کے مقیم حضرات ایسى صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسلامى بھائى چارے کے جذبے سے اپنى مدد آپ کے تحت کوئى وقف فنڈ قائم کرتے ہیں تو شرعاً ایسا وقف فنڈ قائم کرنا جائز ہے، البتہ شرعاً کسى بھى وقف فنڈ کو قائم کرنے کى چند بنیادى شرائط حسب ذیل ہیں:
1) وقف فنڈ قائم کرتے ہوئے ابتداء میں چند افراد مل کر کچھ رقم اس فنڈ کے لیے وقف کر دیں، اس رقم کو خرچ کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اس ابتدائى رقم کے متعلق یہ بنیادى ضابطہ طے کر لیا جائے کہ جب تک یہ وقف فنڈ قائم رہے گا، تب تک یہ بنیادى رقم کبھى خرچ نہیں ہوگى۔
2) جب اس بنیادى رقم سے وقف فنڈ قائم کر لیا جائے تو اس کے بعد وقف فنڈ کے شرکاء سے مقرر شدہ چندہ کى رقم لى جائے اور یہ رقم اس وقف فنڈ کى ملکیت ہوگى، اس رقم کو حسب ضوابط اس کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔
3) فنڈ کے لیے چندہ دینے والوں کى دلى خوشى ضرورى ہے، مذکورہ میت فنڈ میں چونکہ اس میں ہر ممبر کے ذمہ ایک مخصوص مقدار بطور چندہ رقم ادا کرنا لازم ہے تو اس کے لیے ضرورى ہے کہ چندہ کى اتنى مقدار مقرر کى جائے جو کم از کم ہو، تاکہ ہر ممبر بخوشى وہ رقم ادا کر سکے، کسى پر اضافى بوجھ نہ ہو، لہذا باہمى مشاورت سے کوئى کم از کم مقدار چندہ کى مقرر کر لى جائے، ہاں! اگر کوئى خوشى سے اس سے زائد بھى اپنى استطاعت کے مطابق دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ نیز سوال میں مذکور شرائط نامہ میں 100 درہم کى جو مقدار مقرر کى گئى ہے، اگر اس مقدار سے سب شرکاء کو بخوشى اتفاق ہو تو اس پر بھى عمل کیا جا سکتا ہے۔
4) اس وقف سے وہ لوگ مستفید ہو سکتے ہیں جو اس وقف فنڈ کے قواعد کے مطابق اس کى رکنیت حاصل کر لیں، البتہ باہمى مشاورت سے اس میں ایسے افراد کو بھى شامل کیا جا سکتا ہے جو چندہ دینے کى استطاعت نہ رکھتے ہوں، تاکہ ان کے ساتھ بھى تعاون ہو سکے۔
5) اس وقف فنڈ کا ایک ذمہ دار مقرر کر لیا جائے جو مفتیان کرام کى دى گئى شرعى ہدایات کے مطابق اس وقف فنڈ کو اس کے مقاصد میں خرچ کرنے کا پابند ہوگا، اسے ان ذمہ داریوں کى ادائیگى کے عوض معقول وظیفہ اس وقف فنڈ سے ادا کیا جا سکتا ہے، نیز اگر کوئى شخص اس وقف فنڈ کى ذمہ داریوں کو بغیر وظیفے کے اعزازى طور پر سرانجام دےتو اس کى بھى اجازت ہے۔
6) اگر کبھى اس وقف فنڈ کى ضرورت باقى نہ رہے اور اس کو ختم کر کے اس کو تحلیل کرنے کى نوبت آجائے، تو ایسى صورت میں وقف میں موجود رقم کسى ایسے مصرف میں دى جائے جو ہمیشہ جارى رہنے والا ہو، مثلاً: مسجد، مدرسہ وغیرہ۔
مذکورہ بالا شرائط کے مطابق سوال میں مذکور "میت وقف فنڈ " کے شرائط نامہ میں مذکور تفصیلات سے جس ممبر کو اتفاق ہو، وہ اس میں حسب قواعد شریک ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (الحجرات، الآية: 10)
إِنَّمَا ‌الْمُؤْمِنُونَ ‌إِخْوَةٌ ... الخ

صحيح مسلم: (كتاب البر والصلة والآداب، باب تراحم المؤمنين و تعاطفهم و تعاضدهم، رقم الحديث: 2586، 1999/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن النعمان بن بشير. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"‌مثل ‌المؤمنين ‌في ‌توادهم وتراحمهم وتعاطفهم، مثل الجسد ، إذا اشتكى منه عضو، تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى".

مسند أحمد: (رقم الحديث: 21082، 560/34، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عمرو بن يثربي، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ألا ولا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه "

الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الوقف، مطلب في وقف الدراهم و الدنانير، 363/4، ط: دار الفكر- بيروت)
(و) كما صح أيضا وقف كل (منقول) قصدا (فيه تعامل) للناس (كفأس وقدوم) بل (ودراهم ودنانير)".
مطلب في وقف الدراهم والدنانير "(قوله: بل ودراهم ودنانير) عزاه في الخلاصة إلى الأنصاري وكان من أصحاب زفر، وعزاه في الخانية إلى زفر حيث قال: وعن زفر شرنبلالية وقال المصنف في المنح: ولما جرى التعامل في زماننا في البلاد الرومية وغيرها في وقف الدراهم والدنانير دخلت تحت قول محمد المفتى به في وقف كل منقول فيه تعامل كما لا يخفى؛ فلا يحتاج على هذا إلى تخصيص القول بجواز وقفها بمذهب الإمام زفر من رواية الأنصاري والله تعالى أعلم، ‌وقد ‌أفتى ‌مولانا ‌صاحب ‌البحر بجواز وقفها ولم يحك خلافا. اه. ..قلت :وإن الدراهم لا تتعين بالتعيين، فهي وإن كانت لا ينتفع بها مع بقاء عينها لكن بدلها قائم مقامها لعدم تعينها، فكأنها باقية ولا شك في كونها من المنقول، فحيث جرى فيها تعامل دخلت فيما أجازه محمد ولهذا لما مثل محمد بأشياء جرى فيها التعامل في زمانه ...وعن الأنصاري وكان من أصحاب زفر فيمن وقف الدراهم، أو ما يكال أو ما يوزن أيجوز ذلك قال: نعم قيل :وكيف ؟قال :يدفع الدراهم مضاربة، ثم يتصدق بها في الوجه الذي وقف عليه وما يكال أو يوزن يباع ويدفع ثمنه لمضاربة أو بضاعة قال فعلى هذا القياس إذا وقف كرا من الحنطة على شرط أن يقرض للفقراء الذين لا بذر لهم ليزرعون لأنفسهم، ثم يوجد منهم بعد الإدراك قدر القرض، ثم يقرض لغيرهم بهذا الفقراء أبدا على هذا السبيل، يجب أن يكون جائزا قال ومثل هذا كثير في الري وناحية دوماوند اه.
وبهذا ظهر صحة ما ذكره المصنف من إلحاقها بالمنقول المتعارف على قول محمد المفتى به وإنما خصوها بالنقل عن زفر لأنها لم تكن متعارفة إذ ذاك؛ ولأنه هو الذي قال بها ابتداء قال في النهر: ومقتضى ما مر عن محمد عدم جواز ذلك أي وقف الحنطة في الأقطار المصرية لعدم تعارفه بالكلية. نعم وقف الدراهم والدنانير تعورف في الديار الرومية. اه".

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية: (كتاب الوقف، الباب الأول في وقف المريض أرضه أو داره في مرض موته، 120/1، ط: دار المعرفة)
"(سئل) في امرأة وقفت مبلغا معلوما من الدراهم على ولدي بنتها فلان وفلان وقفا صحيحا منجزا مسلما للمتولى مسجلا محكوما بصحته وجعلت آخره لجهة بر لا تنقطع فهل يكون الوقف المزبور جائزا؟
(الجواب) : نعم وأفتى بذلك مفتي الدولة العلية المرحوم علي أفندي وفي الخانية من وقف المنقول عن زفر رجل ‌وقف ‌الدراهم أو الطعام أو ما يكال أو يوزن قال يجوز قيل له كيف يكون قال يدفع الدراهم مضاربة ثم يتصدق بفضلها على الوجه الذي وقف عليه وما يكال ويوزن يباع ويدفع ثمنه مضاربة أو بضاعة كالدراهم اه ومثله في الدرر عن الخلاصة عن الأنصاري وكان من أصحاب زفر. اه".

الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الوقف، 366/4، ط: سعید)
(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم".
(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحةكالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 689 Apr 23, 2024
beron e mulk mein mulazmat kaam noukri ki gharz se muqeem hazrat log ka in mein se kisi fard aadmi ki inteqal wafat marne per hone wale ikhrajat kharchey ke liye waqf fund qaim karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.