سوال:
مفتی صاحب! کیا یہ واقعہ درست ہے؟
ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں تو جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل! میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کر کے آیا ہوں، اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو! جبرائیل نے عرض کی کہ جہنم کے کل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گے۔
یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: اے
جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے ہو؟ مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟
جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کے امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا تو آپ ﷺ حد غمگین ہوئے اور آپ ﷺ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کی، تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے اور نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کر کہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے، صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم ﷺ پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے، مسجد سے حجرے جاتے ہیں، گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکرؓ سے رہا نہیں گیا، وہ دروازے پہ آئے، دستک دی اور سلام کیا، لیکن سلام کا جواب نہیں آیا۔ آپ روتے ہوئے سیدنا عمرؓ کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا، لیکن سلام کا جواب نہ پایا، لہذا آپ جائیں، آپ کو ہوسکتا ہے کہ سلام کا جواب مل جائے، آپ گئے تو آپؓ نے تین بار سلام کیا، لیکن جواب نہ آیا، حضرت عمر نے سلمان فارسیؓ کو بھیجا، لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا، حضرت سلمان فارسیؓ نے اس واقعے کا تذکرہ حضرت علیؓ سے کیا، انہوں نے سوچا کہ جب اتنے عظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نہیں جانا چاہیے، بلکہ مجھے ان کی نور نظر بیٹی فاطمہ بھیجنا چاہیے، لہذا آپ نے فاطمہؓ کو سب احوال بتا کر بھیجا، آپؓ حجرے کے دروازے پہ آئی " ابا جان السلام وعلیکم" بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائینات اٹھے، دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا، ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہے،
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جائے گی، فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ ان کو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ ﷺ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر، ان کو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَی اے میرے محبوب غم نہ کر، میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے، آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا، جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے۔ یہ لکھتے ہوئے آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے ان کو کیا دیا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
ذیل میں اس روایت کا ترجمہ، تخریج اور تحقیق ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں اس انداز سے آئے کہ خوف کی وجہ سے چہرہ کا رنگ متغیر تھا، اس سے پہلے کبھی ایسی حالت میں نہیں آئے تھے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: جبرائیل آج کیا معاملہ ہے تمہارے چہرہ کا رنگ کیوں بدلا ہوا ہے؟ عرض کیا: آج جہنم کے ایسے حالات دیکھ کر آیا ہوں کہ جس شخص کو بھی ان کا یقین ہوگا، اس کو چین اور سکون نہیں مل سکتا، جب تک کہ ان میں مبتلا ہونے سے اپنی حفاظت نہ کر لے، آپﷺنے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام کچھ ہم سے بھی بیان کرو، عرض کیا: بہت اچھا، سنیے! اللہ نے جہنم پیدا کرکے ایک ہزار سال تک دھونکا، وہ سرخ ہو گئی پھر ہزار سال تک دھونکا تو سفید ہوگئی، پھر ہزار سال تک دھونکا تو سیاہ ہو گئی، چنانچہ اس وقت وہ بالکل سیاہ اور تاریک ہے، اس کی لپٹیں اور انگارے کسی وقت خاموش نہیں ہوتے، اللہ کی قسم! اگر سوئی کے ناکہ کے برابر جہنم کو کھول دیا جائے تو سارا عالم جل کر خاک ہو جائے، اگر کسی دوزخی کا کپڑا زمین و آسمان کے درمیان لٹکا دیا جائے تو اس کی بدبو اور سوزش سے سارا عالم موت کے گھاٹ اتر جائے، قرآن میں جن سلاسل کا تذکرہ ہے اگر ان میں سے ایک زنجیر کسی پہاڑ پر رکھ دی جائے تو وہ پگھل کر تحت الثریٰ تک پہنچ جائے، اگر مشرق میں کسی شخص کو جہنم کا عذاب دیا جائے تو اس کی سوزش سے مغرب میں رہنے والے لوگ تڑپنے لگیں، اس کی سوزش بہت سخت، اس کی گہرائی بے انتہا، اس کا زیور لوہا اور اس کا پانی کھولتا ہوا پیپ ہے، اس کے کپڑے آگ کے ہیں، اس کے سات دروازے ہیں،ہر دروازہ سے جانے والے مرد و عورت متعین ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا وہ ہمارے مکانوں جیسے دروازے ہیں؟ عرض کیا نہیں، بلکہ وہ اوپر نیچے اور کھلے ہوئے ہیں، دو دروازوں کے درمیان کی مسافت ستر سال ہے، ہر دروازہ دوسرے سے ستر گنا زیادہ گرم ہے، اللہ کے دشمن ہنکا کر ان دروازوں کی جانب لے جائے جائیں گے، جب دروازہ تک پہنچیں گے تو وہاں ان کا استقبال طوق اور زنجیروں سے کیا جائے گا، منہ میں زنجیر داخل کر کے دبر سے نکال دی جائے گی، اس طرح ہاتھ پیروں کو باندھ دیا جائے گا، ہر ایک کے ساتھ ان کا شیطان بھی ہو گا، منہ کے بل گھسیٹ کر لوہے کے ہتھوڑے سے مارتے ہوئے فرشتے ان کو جہنم میں دھکیل دیں گے، وہاں سے جب بھی تکلیف کی وجہ سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، اسی میں واپسی دھکیل دیے جائیں گے۔
رسول اللہﷺنے دریافت کیا کہ ان دروازوں میں کون لوگ رہیں گے؟ عرض کیا: سب سے نیچے کے دروازہ (طبقہ) میں منافقین اور اصحاب مائدہ اور فرعون والے رہیں گے، اس درجہ کا نام’’ہاویہ‘‘ ہے، دوسرے درجہ میں جس کا نام’’ جحیم‘‘ ہے مشرکین، اور تیسرے درجہ ’’سقر‘‘ میں صائبین، چوتھے درجہ میں ابلیس اور اس کے متبعین رہیں گے، اس کا نام’’ لظیٰ‘‘ ہے، پانچویں دروازہ ’’حطمہ‘‘ میں یہود اور چھٹے دروازے میں نصاری رہیں گے، اس کا نام ’’سعیر‘‘ ہے، اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے، آپ نے فرمایا:خاموش کیوں ہوگئے، ساتویں دروازہ میں کون لوگ رہیں گے؟جبرائیل علیہ السلام نے تکلف کے ساتھ شرماتے ہوئے بتایا کہ اس میں آپ کی امت کے وہ لوگ رہیں گے جنہوں نے گناہ کبیرہ کیے اور بغیر توبہ کے مر گئے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہوکر گر گئے (فداہ ابی وامی)، جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا سر مبارک اپنی گود میں رکھ لیا، جب آپ کو افاقہ ہوا تو فرمایا: جبرائیل علیہ السلام میں بہت بڑی پریشانی اور غم میں مبتلا ہوگیا، کیا میری امت میں سے بھی کوئی شخص آگ میں ڈالا جائے گا؟ عرض کیا: جی ہاں! گناہ کبیرہ کرنے اور بلا توبہ مر جانے والے، رسول اللہﷺیہ سن کر رونے لگے، آپ کو دیکھ کر جبرائیل علیہ السلام بھی رونے لگے۔آپﷺ گھر تشریف لے گئے اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا، صرف نماز کے لیے باہر تشریف لاتے اور کسی سے بات کئے بغیر گھر میں تشریف لے جاتے، کیفیت یہ تھی کہ روتے ہوئے نماز شروع فرماتے اور روتے ہوئے ختم فرماتے، تیسرے روز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دروازہ پر حاضر ہوئے سلام کیا اور داخلہ کی اجازت مانگی، اندر سے کوئی جواب نہ ملا، روتے ہوئے واپس گئے، اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا، وہ بھی روتے ہوئے واپس ہوئے، اتنے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آگئے، انہیں بھی کوئی جواب نہ ملا تو بے قرار ہو گئے، کبھی بیٹھتے کبھی کھڑے ہوتے واپس ہوئے تو فوراً لوٹ آتے، اسی بے قراری کے عالم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے تک پہنچ گئے اور ساری رُوداد سنا ڈالی، سنتے ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی بے چین ہوگئیں اور چادر اوڑھ کر سیدھی درِ رسالت کی طرف روانہ ہوئیں، دروازہ پر سلام کے بعد عرض کیا: میں فاطمہ ہوں، اس وقت رسول اللہﷺ سجدہ میں پڑے اپنی امت کے لیے رو رہے تھے، سر اٹھا کر فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک فاطمہ! کیا حال ہے؟ گھر والوں سے فرمایا: دروازہ کھول دو، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اندر داخل ہوئیں تو آپ کی حالت دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رو پڑیں اور بہت روئیں، انہوں نے دیکھا کہ آپﷺ کی حالت متغیر ہے، رنگ پیلا پڑ چکا ہے، چہرہ کی بشاشت غائب ہے، عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ کو کیا پریشانی ہے اور آپ کو کس بات کے غم نے اتنا ستایا ہے جو آپ کا یہ حال ہوگیا؟ ارشاد فرمایا: فاطمہ! میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے، انہوں نے مجھے جہنم کے حالات بتائے اور بتایا کہ سب سے اوپر کے طبقہ میں میری امت کے گناہ کبیرہ کرنے والے رہیں گے، اس غم نے میری یہ کیفیت کر دی، عرض کیا: یارسول اللہﷺ! کس طرح ان کو داخل کیا جائے گا؟فرمایا: فرشتے ان کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے، لیکن ان کے چہرے سیاہ نہیں ہوں گے، آنکھیں نیلی نہیں ہوں گی، نہ منہ پر مہر لگی ہوگی، نہ ان کے ساتھ ان کا شیطان ہوگا، انہیں طوق و زنجیر سے بھی نہیں جکڑا جائے گا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ!فرشتے کس طرح کھینچیں گے؟ فرمایا: مردوں کی داڑھی پکڑ کر اور عورتوں کی چوٹی پکڑ کر مرد و عورت، جوان و بوڑھے اپنی بے عزتی و رسوائی پر چیخ و پکار کریں گے، اس حال میں جب جہنم تک پہنچیں گے تو داروغہ جہنم (مالک) فرشتوں سے کہے گا یہ کون لوگ ہیں؟ ان کی شان عجیب ہے، نہ ان کے چہرے کالے ہیں، نہ آنکھیں نیلی، نہ ان کے منہ پر مہر لگی ہے، نہ ان کے ساتھ ان کا شیطان ہے، نہ ان کے گلے میں طوق ہے، نہ ان کو زنجیروں سے ہی باندھا گیا ہے، فرشتے کہیں گے، ہم کچھ نہیں جانتے ہم نے تو حکم کے بموجب ان کو آپ تک پہنچا دیا، داروغہ جہنم ان لوگوں سے کہے گا، بدبختو! تم ہی بتادو تم کون ہو؟
ایک روایت کے مطابق وہ راستہ میں ہائے محمد، ہائے محمد پکارتے جائیں گے، لیکن داروغہ جہنم کو دیکھتے ہی حضور ﷺ کا نام بھول جائیں گے) وہ کہیں گے، ہم وہ ہیں جن پر قرآن نازل ہوا اور رمضان کے روزے فرض کئے گئے، داروغہ کہے گا: قرآن تو صرف حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا تھا، آپﷺکا نام سنتے ہی پکاریں گے، ہم حضرت محمدﷺ کے امتی ہیں، داروغہ جہنم کہے گا: کیا قرآن میں اللہ کی نافرمانی پر تمہیں ڈرایا نہیں گیا تھا؟ جہنم کے دروازہ پر آگ دیکھ کر یہ لوگ داروغہ سے گزارش کریں گے، ہمیں اپنے پر رو لینے دیجیے، چنانچہ روتے روتے آنکھوں کا پانی ختم اور خون جاری ہو جائے گا، داروغہ جہنم کہے گا، کاش یہ رونا دنیا میں ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی، داروغہ کے حکم سے ان کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا، سب کے سب بیک آواز پکاریں گے ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ یہ سن کر آگ لوٹ جائے گی، داروغہ جہنم کے معلوم کرنے پر کہے گی: میں ان کو کیونکر پکڑوں جب کہ ان کی زبانوں پر کلمہ توحید ہے، چند مرتبہ ایسا ہی ہوگا، پھر داروغہ جہنم کہے گا: اللہ کا یہی حکم ہے، تب ان کو آگ پکڑے گی، کسی کو قدموں تک، کسی کو گھٹنوں تک، کسی کو کوکھ تک اور کسی کو گلے تک، جب آگ چہرہ تک آئے گی تو داروغہ کہے گا کہ ان کے چہروں اور دلوں کو نہ جلانا، کیونکہ انہوں نے دنیا میں نمازیں پڑیں، سجدے کیے اور رمضان میں روزے رکھے ہیں، جب تک اللہ کی مرضی ہوگی اپنے گناہوں کی سزا میں یہ لوگ جہنم میں پڑے رہیں گے اور بار بار اللہ کو پکارتے رہیں گے۔ (یاحنان یامنان یا ارحم الراحمین) آخر ایک دن اللہ رب العزت جبرائیل علیہ السلام سے فرمائیں گے: امت محمدیہ کی تو خبر لو ان کا کیا حال ہے؟ وہ دوڑے ہوئے داروغہ جہنم کے پاس پہنچیں گے، وہ جہنم کے وسط میں آگ کے ممبر پر تشریف فرما ہوں گے، جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی استقبال کے لیے کھڑے ہو جائیں گے، آنے کا سبب دریافت کرینگے، جبرائیل علیہ السلام کہیں گے: امت محمدیہﷺ کے حال کی تفتیش کے لیے آیا ہوں، ان کا کیا حال ہے؟ وہ جواب دیں گے، بہت برا حال ہے، تنگ جگہ میں پڑے ہیں، آگ نے ان کے جسم جلا ڈالے، ان کا گوشت کھا گئی، صرف چہرہ اور دل باقی ہے جن میں ایمان چمک رہا ہے، جبرائیل علیہ السلام فرمائیں گے، ذرا مجھے بھی دکھاؤ، جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی لوگ سمجھ جائیں گے یہ عذاب کے فرشتہ نہیں ہیں، اتنا حسین چہرہ آج تک نہیں دیکھا، ان سے کہا جائے گا:یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں جو حضرت محمدمصطفیﷺ کے پاس وحی لے جایا کرتے تھے۔ وہ لوگ آپ ﷺکا اسم گرامی سنتے ہی چیخنے لگیں گے، جبرائیل علیہ السلام ہمارے آقا ﷺ سے ہمارا سلام عرض کر دینا اور یہ بھی کہہ دینا کہ ہمارے گناہوں نے ہمیں آپ سے جدا اور برباد کر دیا، جبرائیل علیہ السلام واپس ہو کر رب کریم کو سارا ماجرا سنائیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جبرائیل علیہ السلام انہوں نے تم سے کچھ کہا ہے، کہیں گے، جی ہاں! حضور اکرمﷺسے اپنا سلام عرض کرنے اور اپنی تباہ حالی بیان کرنے کو کہا ہے، حکم ہوگا، جاؤ، ان کا پیغام پہنچا دو، یہ سنتے ہی جبرائیل علیہ السلام فوراً حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچیں گے، آپ اس وقت سفید موتی کے ایک ایسے محل میں آرام فرما ہوں گے، جس کے چار ہزار دروازے ہوں گے، ہر دروازے کے دونوں پٹ سونے کے ہوں گے، سلام کے بعد عرض کریں گے: آپ کی امت کے گناہ گاروں کے پاس سے آرہا ہوں، انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور اپنی تباہی وبربادی کا حال آپ تک پہنچانے کو کہا ہے، (وہ بہت ہی پریشانی ومصیبت میں مبتلا ہیں)آپﷺ سنتے ہی عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ ریز ہو جائیں گے، اور اللہ کی ایسی تعریف کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے بھی ان الفاظ میں تعریف نہ کی ہوگی، حکم ہوگا، سر اٹھاؤ، مانگو کیا مانگتے ہو؟ ضرور دیا جائے گا، اگر کسی کی شفاعت کرنا چاہتے ہو تو قبول کی جائے گی، بارگاہِ ایزدی میں رسول اللہ ﷺ عرض کریں گے: اے پروردگار! میری امت کے گناہ گاروں پر آپ کا حکم نافذ ہو چکا، انہیں ان کے گناہوں کی سزا دی جا چکی، اب ان کے سلسلہ میں میری شفاعت قبول فرمائیے۔ حکم ہوگا ہم نے آپ کی شفاعت قبول فرمائی، آپ خود تشریف لے جائیے اور جہنم سے ہر اس شخص کو نکال لیجئے جس نے’’لاالہ الا اللہ‘‘ پڑھا ہو، چنانچہ رسول اللہﷺ جہنم کی طرف جائیں گے، داروغہ جہنم آپ کو دیکھتے ہی تعظیم کے لیے کھڑا ہو جائے گا، آپ اس سے فرمائیں گے: مالک میری امت کے گناہ گاروں کا کیا حال ہے؟ وہ عرض کرے گا، بہت بُرا حال ہے، آپ جہنم کا دروازہ کھولنے کا حکم دیں گے۔
جیسے ہی جہنمی رسول اللہﷺ کو دیکھیں گے، چیخ پڑیں گے، یارسول ا للہﷺ! آگ نے ہماری کھالوں اور کلیجوں کو جلا ڈالا، آپ سب کو نکالیں گے، سب کوئلے کی طرح کالے ہوں گے، آپ ان کو نہر رضوان میں غسل دیں گے، جو جنت کے دروازہ پر ہو گی، اس میں نہا کر خوبصورت نوجوان بن کر نکلیں گے، چہرے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے، پیشانی پر لکھا ہوگا ’’الجهنمیون عتقاء الرحمن ‘‘ (یہ وہ جہنمی ہیں جن کو اللہ رحمن نے آزاد فرمایا ہے) پھر ان کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔اس وقت بقیہ جہنمی حسرت کے ساتھ کہیں گے: کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے تو آج ان کی طرح دوزخ سے نکال لیے جاتے’’ربما یود الذین کفروا لوکانو مسلمین‘‘ بہت سے کافر اس کی تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔
تخریج:
۱۔اس روایت کو علامہ ابواللیث سمرقندی (م۳۷۳ھ) نے بغیر سند کے ’’تنبیہ الغافلین‘‘میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ بالا روایت کا حکم:
سوال میں ذکر کردہ روایت انہی الفاظ اور خاص پس منظر کے ساتھ صرف ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں ہے اور’’تنبیہ الغافلین‘‘ان کتابوں میں سے ہے جن میں غیر مستند اور من گھڑت روایات ذکر کی گئی ہیں، جیسا حافظ ذہبی (م۷۴۸ھ) نے لکھا ہے کہ ’’ تنبیہ الغافلین" نامی کتاب میں بہت سی من گھڑت روایات پائی جاتی ہیں، لہذا اس روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تنبيه الغافلين: (ص: 70، ط: دار ابن كثير)
وروى يزيد الرقاشي، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «ما لي أراك متغير اللون؟» فقال: يا محمد جئتك في الساعة التي أمر الله بمنافخ النار أن تنفخ فيها، ولا ينبغي لمن يعلم أن جهنم حق وأن النار حق وأن عذاب القبر حق وأن عذاب الله أكبر أن تقر عينه حتى يأمنها.
فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا جبريل صف لي جهنم» قال: نعم.
إن الله تعالى لما خلق جهنم أوقد عليها ألف سنة فاحمرت، ثم أوقد عليها ألف سنة فابيضت، ثم أوقد عليها ألف سنة فاسودت، فهي سوداء مظلمة لا ينطفئ لهبها، ولا جمرها، والذي بعثك بالحق لو أن مثل خرم إبرة فتح منها لاحترق أهل الدنيا عن آخرهم من حرها، والذي بعثك بالحق لو أن ثوبا من أثواب أهل النار علق بين السماء والأرض لمات جميع أهل الأرض من نتنها وحرها عن آخرهم، لما يجدون من حرها، والذي بعثك بالحق نبيا، لو أن ذراعا من السلسلة التي ذكرها الله تعالى في كتابه، وضع على جبل لذاب حتى يبلغ الأرض السابعة.والذي بعثك بالحق نبيا لو أن رجلا بالمغرب يعذب، لاحترق الذي بالمشرق من شدة عذابها، حرها شديدوقعرها بعيد وحليها حديد وشرابها الحميم والصديد وثيابها مقطعات.
النيران لها سبعة أبواب.
لكل باب منهم جزء مقسوم من الرجال والنساء، فقال صلى الله عليه وسلم: «أهي كأبوابنا هذه؟» قال: لا، ولكنها مفتوحة، بعضها أسفل من بعض.
من باب إلى باب مسيرة سبعين سنة، كل باب منها أشد حرا من الذي يليه سبعين ضعفا، يساق أعداء الله إليها فإذا انتهوا إلى بابها استقبلتهم الزبانية بالأغلال والسلاسل، فتسلك السلسلة في فمه وتخرج من دبره، وتغل يده اليسرى إلى عنقه وتدخل يده اليمنى في فؤاده وتنزع من بين كتفيه، وتشد بالسلاسل ويقرن كل آدمي مع شيطان في سلسلة، ويسحب على وجهه وتضربه الملائكة، بمقامع من حديد كلما أرادوا أن يخرجوا منها من غم أعيدوا فيها.
فقال صلى الله عليه وسلم: «من سكان هذه الأبواب؟» فقال أما الباب الأسفل ففيه المنافقون ومن كفر من أصحاب المائدة وآل فرعون، واسمها الهاوية، والباب الثاني فيه المشركون واسمه الجحيم، والباب الثالث فيه الصابئون واسمه سقر، والباب الرابع فيه إبليس ومن تبعه والمجوس واسمه لظى، والباب الخامس فيه اليهود واسمه الحطمة، والباب السادس فيه النصارى واسمه السعير، ثم أمسك جبريل حياء من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
فقال له عليه الصلاة والسلام: «ألا تخبرني من سكان الباب السابع؟» فقال: فيه أهل الكبائر من أمتك الذين ماتوا ولم يتوبوا، فخر النبي صلى الله عليه وسلم مغشيا عليه، فوضع جبريل رأسه على حجره حتى أفاق قال: «يا جبريل عظمت مصيبتي واشتد حزني أو يدخل أحد من أمتي النار» قال: نعم أهل الكبائر من أمتك.ثم بكى رسول الله صلى الله عليه وسلم وبكى جبريل ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم منزله واحتجب عن الناس.فكان لا يخرج إلا إلى الصلاة يصلي ويدخل ولا يكلم أحدا ويأخذ في الصلاة ويبكي ويتضرع إلى الله تعالى، فلما كان اليوم الثالث، أقبل أبو بكر رضي الله عنه حتى وقف بالباب وقال: السلام عليكم يا أهل بيت الرحمة، هل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من سبيل؟ فلم يجبه أحد، فتنحى باكيا، فأقبل عمر رضي الله عنه، فوقف بالباب وقال السلام عليكم يا أهل بيت الرحمة هل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من سبيل؟ فلم يجبه أحدفتنحى وهو يبكي، فأقبل سلمان الفارسي حتى وقف بالباب وقال: السلام عليكم يا أهل بيت الرحمة، هل إلى مولاي رسول الله صلى الله عليه وسلم من سبيل؟ فلم يجبه أحد، فأقبل يبكي مرة ويقع مرة، ويقوم أخرى حتى أتى ببيت فاطمة ووقف بالباب، ثم قال: السلام عليك يا ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
وكان علي رضي الله عنه غائبا، فقال يا ابنة رسول الله، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد احتجب عن الناس فليس يخرج إلا إلى الصلاة، فلا يكلم أحدا ولا يأذن لأحد في الدخول عليه، فاشتملت فاطمة بعباءة قطوانية وأقبلت حتى وقفت على باب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم سلمت، وقالت: يا رسول الله أنا فاطمة.
ورسول الله ساجد يبكي، فرفع رأسه وقال: «ما بال قرة عيني فاطمة حجبت عني افتحوا لها الباب» ففتح لها الباب، فدخلت فلما نظرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكت بكاء شديدا لما رأت من حاله مصفرا متغيرا قد ذاب لحم وجهه من البكاء والحزن، فقالت يا رسول الله ما الذي نزل عليك؟ فقال: «يا فاطمة جاءني جبريل ووصف لي أبواب جهنم، وأخبرني أن في أعلى بابها أهل الكبائر من أمتي، فذلك الذي أبكاني وأحزنني» .
قالت يا رسول الله كيف يدخلونها؟ قال: «بلى تسوقهم الملائكة إلى النار ولا تسود وجوههم ولا تزرق أعينهم ولا يختم على أفواههم ولا يقرنون مع الشياطين ولا يوضع عليهم السلاسل والأغلال» .
قالت: قلت يا رسول الله وكيف تقودهم الملائكة؟ فقال: " أما الرجال فباللحى وأما النساء فبالذوائب والنواصي، فكم من شيبة من أمتي يقبض على لحيته ويقاد إلى النار وهو ينادي واشيبتاه واضعفاه، وكم من شاب قد قبض على لحيته يساق إلى النار وهو ينادي واشباباه.
واحسن صورتاه، وكم من امرأة من أمتي قد قبض على ناصيتها تقاد إلى النار وهي تنادي وافضيحتاه واهتك ستراه، حتى ينتهى بهم إلى مالك فإذا نظر إليهم مالك قال للملائكة: من هؤلاء؟ فما ورد علي من الأشقياء أعجب شأنا من هؤلاء! لم تسود وجوههم ولم تزرق أعينهم ولم يختم على أفواههم ولم يقرنوا مع الشياطين ولم توضع السلاسل والأغلال في أعناقهم؟فتقول الملائكة هكذا أمرنا أن نأتيك بهم على هذه الحالة.
فيقول لهم مالك يا معشر الأشقياء من أنتم؟ ".
وروي في خبر آخر أنهم لما قادتهم الملائكة ينادون وا محمداه، فلما رأوا مالكا نسوا اسم محمد صلى الله عليه وسلم من هيبته، فيقول لهم من أنتم؟ فيقولون: نحن ممن أنزل علينا القرآن، ونحن ممن يصوم رمضان، فيقول مالك: ما نزل القرآن إلا على أمة محمد صلى الله عليه وسلم.
فإذا سمعوا اسم محمد صاحوا وقالوا نحن من أمة محمد صلى الله عليه وسلم، فيقول لهم مالك: أما كان لكم في القرآن زاجر عن معاصي الله تعالى؟ ! فإذا وقف بهم شفير جهنم ونظروا إلى النار وإلى الزبانية، قالوا يا مالك: ائذن لنا فنبكي على أنفسنا، فيأذن لهم فيبكون الدموع حتى لم يبق لهم دموع فيبكون الدم، فيقول مالك: ما أحسن هذا البكاء لو كان في الدنيا، فلو كان هذا البكاء في الدنيا من خشية الله ما مستكم النار اليوم.
فيقول مالك للزبانية ألقوهم.
ألقوهم في النار.
فإذا ألقوا في النار، نادوا بأجمعهم لا إله إلا الله، فترجع النار عنهم فيقول مالك يا نار خذيهم، فتقول كيف آخذهم وهم يقولون: لا إله إلا الله.
فيقول مالك للنار: خذيهم، فتقول كيف آخذهم وهم يقولون لا إله إلا الله، فيقول مالك نعم بذلك أمر رب العرش.
فتأخذهم فمنهم من تأخذه إلى قدميه، ومنهم من تأخذه إلى ركبتيه، ومنهم من تأخذه إلى حقويه، ومنهم من تأخذه إلى حلقه.
فإذا أهوت النار إلى وجهه، قال مالك لا تحرقي وجوههم فطالما سجدوا للرحمن في الدنيا، ولا تحرقي قلوبهم فطالما عطشوا في شهر رمضان، فيبقون ما شاء الله فيها ويقولون يا أرحم الراحمين، يا حنان يا منان، فإذا أنفذ الله تعالى حكمه قال يا جبريل: ما فعل العاصون من أمة محمد صلى الله عليه وسلم، فيقول اللهم أنت أعلم بهم، فيقول انطلق فانظر ما حالهم.فينطلق جبريل عليه الصلاة والسلام إلى مالك وهو على منبر من نار في وسط جهنم، فإذا نظر مالك إلى جبريل عليه الصلاة والسلام، قام تعظيما له، فيقول يا جبريل: ما أدخلك هذا الموضع؟ ! فيقول ما فعلت بالعصابة العاصية من أمة محمد؟ فيقول مالك: ما أسوأ حالهم وأضيق مكانهم، قد أحرقت أجسامهم وأكلت لحومهم، وبقيت وجوههم وقلوبهم يتلألأ فيها الإيمان فيقول جبريل ارفع الطبق عنهم حتى أنظر إليهم.
قال، فيأمر مالك الخزنة فيرفعون الطبق عنهم، فإذا نظروا إلى جبريل وإلى حسن خلقه علموا أنه ليس من ملائكة العذاب، فيقولون من هذا العبد الذي لم نر أحدا قط أحسن منه؟ فيقول مالك: هذا جبريل الكريم على ربه الذي كان يأتي محمدا صلى الله عليه وسلم بالوحي.
فإذا سمعوا ذكر محمد صلى الله عليه وسلم صاحوا بأجمعهم، وقالوا يا جبريل أقرئ محمدا صلى الله عليه وسلم منا السلام وأخبره أن معاصينا فرقت بيننا وبينك، وأخبره بسوء حالنا، فينطلق جبريل حتى يقوم بين يدي الله تعالى، فيقول الله تعالى، كيف رأيت أمة محمد؟ فيقول يا رب ما أسوأ حالهم وأضيق مكانهم، فيقول هل سألوك شيئا؟ فيقول يا رب نعم سألوني أن أقرئ نبيهم منهم السلام، وأخبره بسوء حالهم، فيقول الله تعالى انطلق وأخبره فينطلق جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في خيمة من درة بيضاء لها أربعة آلاف باب، لكل باب مصراعان من ذهب، فيقول يا محمد قد جئتك من عند العصابة الذين يعذبون من أمتك في النار، وهم يقرؤونك السلام ويقولون ما أسوأ حالنا وأضيق مكاننا فيأتي النبي صلى الله عليه وسلم إلى تحت العرش فيخر ساجدا ويثني على الله تعالى ثناء لم يثن عليه أحد مثله، فيقول الله تعالى ارفع رأسك وسل تعط، واشفع تشفع، فيقول يا رب الأشقياء من أمتي، قد أنفذت فيهم حكمك وانتقمت منهم، فشفعني فيهم، فيقول الله تعالى قد شفعتك فيهم، فائت النار فأخرج منها من قال لا إله إلا الله، فينطلق النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا نظر مالك النبي صلى الله عليه وسلم قام تعظيما له، فيقول يا مالك ما حال أمتي الأشقياء؟ فيقول ما أسوأ حالهم وأضيق مكانهم؛ فيقول محمد صلى الله عليه وسلم افتح الباب وارفع الطبق فإذا نظر أهل النار إلى محمد صلى الله عليه وسلم صاحوا بأجمعهم فيقولون يا محمد أحرقت النار جلودنا، وأحرقت أكبادنافيخرجهم جميعا وقد صاروا فحما قد أكلتهم النار، فينطلق إلى نهر بباب الجنة يسمى نهر الحيوان، فيغتسلون منه فيخرجون منه شبابا جردا مردا مكحلين، وكأن وجوههم مثل القمر، مكتوب على جباههم، الجهنميون عتقاء الرحمن من النار فيدخلون الجنة.
فإذا رأى أهل النار أن المسلمين قد أخرجوا منها، قالوا يا ليتنا كنا مسلمين، وكنا نخرج من النار وهو قوله تعالى: {ربما يود الذين كفروا لو كانوا مسلمين} [الحجر: 2].
تاريخ الاسلام للذهبي: (583/26، ط: دار الكتاب العربي)
وفي كتاب «تنبيه الغافلين» موضوعات كثيرة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی