عنوان: نواسی کو اپنی جائیداد میں سے کچھ دینا یا اس کے حق میں وصیت کرنا (15883-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک بیوہ خاتون ہے، اس کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، ایک بیٹی کا انتقال ہو چکا ہے، اس کی ایک جائیداد ہے، جس کی مالیت 38 لاکھ روپے ہے، اس میں چار لاکھ ایک بیٹے نے لگائے تھے۔ بیوہ خاتون اپنی جائیداد کی شرعی تقسیم کرنا چاہتی ہے جس میں وہ اپنی مرحوم بیٹی کی بیٹی کی شادی میں بھی مدد کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں انہیں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ جزاک اللہ خیراً
تنقیح:
محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ یہ پراپرٹی بیوہ خاتون کی ملکیت ہے یا ان کے مرحوم شوہر کی ملکیت ہے؟ نیز بیٹے نے چار لاکھ روپے کس مد (مکان خریدنے یا تعمیر) میں لگائے ہیں اور پیسے لگاتے ہوئے بیٹے نے قرض وغیرہ کی کوئی وضاحت کی تھی یا نہیں؟ ان باتوں کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
یہ پراپرٹی بیوہ کی ذاتی ملکیت ہے اور بیٹے نے قرض کہہ کر یہ رقم لگائی تھی۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ خاتون پر بیٹے کے چار لاکھ روپے قرض ہیں، اس کے علاوہ وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی تن تنہا مالک اور مختار ہیں، ان کی زندگی میں ان کے مال و جائیداد میں اولاد کا شرعی طور پر حصہ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے، تاہم اگر والدہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیں تو تقسیم کرسکتی ہیں۔
البتہ اگر وہ اپنی نواسی کو اپنی زندگی میں کچھ دینا چاہیں تو اس کو مالکانہ تصرف کے ساتھ دے سکتی ہیں یا اپنے مرنے کے بعد اپنی جائیداد میں سے نواسی کے لیے ایک تہائی (1/3) تک کی وصیت بھی کرسکتی ہیں۔
نوٹ: زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کے بارے میں دارالافتاء کا مندرجہ ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں:
https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=8972

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح المجلة: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".

الفتاوی الھندیة: (الباب الثانی فیما یجوز من الھبة، 378/4، ط: دار الفکر)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

البحر الرائق: (کتاب الفرائض، 346/9، ط: رشیدیه)
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".

الفتاوی الھندیة: (90/6، ط: دار الفکر)
تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 59 May 02, 2024
nawasi ko apni jaidad mein se kuch dena ya us ke haq mein wasiyat wasiyyat karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.