سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ پتھر والی انگھوٹی یا ایسی کچھ انگھوٹھیاں دونوں ہاتھوں میں استعمال کرتے ہیں، کیا یہ استعمال کرنا صحیح ہے؟ فلاں پتھر یہ بیماری پریشانی سے بچاتا ہے یا رزق دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے، یہ لکی ہے، وغیرہ وغیرہ، اس قسم کے خیال سے پہننا کیسا ہے؟ اور ایسی نیت یا سوچ کے بغیر پتھر والی انگھوٹھیاں پہننا کیسا ہے؟ جزاک اللہ
جواب: مرد کیلئے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات مثلاً سونا، لوہا، تانبا، پیتل وغیرہ کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے، مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی بهی ساڑھے تین ماشے سے زیادہ نہ ہو۔
اسی طرح عورت کے لیے بھی سونا چاندی کے علاوہ دوسرے دھاتوں کی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے۔
واضح رہے کہ مختلف قسم کے پتھر مثلاً عقیق، فیروزہ، یاقوت وغیرہ سے متعلق یہ اعتقاد ویقین رکھنا کہ فلاں پتھر میری زندگی پراچھے اثرات ڈالتا ہے یا روزی میں برکت ہوتی ہے، پتھروں سے متعلق ایسے عقیدے رکهنا ناجائز یے، بلکہ زندگی پراچھے برے اثرات انسان کے اپنے عملِ صالح یا عملِ بد سے ہیں، نہ کہ پتھ رسے، لہذا اس عقیدے کے ساتھ انگوٹھیوں کو پہننا ناجا ئز وحرام ہے، البتہ اگر کوئی Medical Treatment کے لیے پہنے اور واقعتاً اس کے پہننے سے بدن کے ظاہری حصہ پر اثر ہوتا ہو اور پہننے میں غلط عقیدہ نہ ہو تو بطورِ علاج پہننے کی گنجائش ہوگی۔
اسی طرح اگر ان پتھروں سے متعلق کسی قسم کا کوئی غلط عقیدہ نہ ہو تو پهر انگوٹھی میں ایسے پتهر لگاکر پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف، 925/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن عبد الله بن سرجس قال: رأيت الأصلع -يعنى عمر بن الخطاب - يقبل الحجر، ويقول: والله إنى لأقبلك وإنى أعلم أنك حجر، وأنك لاتضر ولاتنفع، ولولا أنى رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك ما قبلتك".
شرح النووی علی مسلم: (باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف، 413/1، ط: قدیمی)
"وأما قول عمر رضي الله عنه: لقد علمت أنك حجر وأنى لأعلم أنك حجر، وأنت لاتضر ولاتنفع، فأراد به بيان الحث على الاقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم في تقبيله ونبه على أنه أولا الاقتداء به لما فعله، وإنما قال: وأنك لاتضر ولاتنفع؛ لئلايغتر بعض قريبى العهد بالاسلام الذين كانوا ألفوا عبادة الأحجار وتعظيماً ورجاء نفعها وخوف الضر بالتقصير في تعظيمها، وكان العهد قريباً بذلك، فخاف عمر رضي الله عنه أن يراه بعضهم يقبله ويعتنى به فيشتبه عليه، فبين أنه لايضر ولاينفع بذاته، وإن كان امتثال ما شرع فيه ينفع بالجزاء والثواب، فمعناه أنه لا قدرة له على نفع ولا ضر، وأنه حجر مخلوق كباقي المخلوقات التي لاتضر ولاتنفع، وأشاع عمر هذا في الموسم ليشهد في البلدان ويحفظه عنه أهل الموسم المختلفوا الأوطان والله أعلم".
سنن أبي داؤد: (باب ما جاء في خاتم الحدید، رقم الحدیث: 4224، 277/4، دار ابن حزم)
عن أبي ذباب عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ قال: کان خاتم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من حدید مَلوِيٌّ علیہ فِضۃٌ۔ من حدید مَلوِيٌّ علیہ فِضۃٌ۔ قال: فرُبّما کان في یدي۔ قال: وکان المُعیقِیبُ علی خاتم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
الھندیۃ: (الباب العاشر في استعمال الذہب و الفضۃ، 335/5)
والتختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء جمیعا … ولا بأس بأن يتخذ خاتم حديد قد لوي عليه فضة أو ألبس بفضة حتى لا يرى كذا في المحيط. ثم الحلقة في الخاتم هي المعتبرة؛ لأن قوام الخاتم بها، ولا معتبر بالفص حتى أنه يجوز أن يكون حجرا أو غيره۔۔۔۔۔ذكر في الجامع الصغير وينبغي أن تكون فضة الخاتم المثقال، ولا يزاد عليه وقيل: لا يبلغ به المثقال وبه ورد الأثر، كذا في المحيط.
الدر المختار: (360/6، ط: دار الفکر)
(والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها وحل مسمار الذهب في حجر الفص
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی