سوال:
جناب حضرت مفتی صاحب! یہاں کینیڈا میں عموماً قربانی کی کھال پھینک دی جاتی ہے، ابھی کسی نے مجھے بتایا کہ قربانی کی کھال اگر کسی کو نہ دی جائے تو اس کی مد میں پیسے صدقہ کرنا چاہیے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ماضی میں جو ہم نے کھالیں پھینکی ہیں تو کیا ہمیں ان سب کا حساب کتاب کر کے وہ پیسے صدقہ کرنے پڑیں گے؟ اگر ہاں تو اس کا تخمینہ کیسے لگایا جائے؟
دوسرا یہاں جو فلپینی لوگ رہتے ہیں، وہ اکثر کچھ چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں، جیسے کہ بکرے/ گائے کی اوجھڑی، آنتیں اور کھال تو کیا ہم کافروں کو یہ چیزیں دے سکتے ہیں یا صرف گوشت دیا جا سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ عام حالات میں قربانی کی کھال کو پھینکنا درست نہیں ہے، کیوں کہ اس میں مال کا ضیاعِ ہے جوکہ جائز نہیں۔ تاہم اگر کھال کو خود استعمال کرنا یا کسی مسلمان تک پہنچانا مشکل ہو تو فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردی جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں جان چھڑانے کے لیے کافر کو دینے یا پھینکنے کی گنجائش ہے، اگر پھینک دی جائے تو اس پر کوئی صدقہ یا کفارہ لازم نہیں ہے، نیز اب تک جو کھالیں پھینکی ہیں ان کے عوض بھی صدقہ لازم نہیں ہے، اوجھڑی اور آنتوں کا بھی یہی حکم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية في شرح بداية المبتدي: (4/ 360، ط: دار احياء التراث العربي)
واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح، فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه.
الهندية: (5/ 300، ط: دار الفكر)
ويهب منها ما شاء للغني والفقير والمسلم والذمي، كذا في الغياثية.
امداد الفتاویٰ: (3/552، ط: مکتبة دار العلوم كراتشي)
امداد الأحكام: (4/200، 205 و 206 ط: مکتبة دار العلوم كراتشي)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
(مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)
http://AlikhlasOnline.com