سوال:
مفتی صاحب! ایک 23 سال کی شادی شدہ لڑکی فوت ہوگئی ہے، اس کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔
(1) معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا بچوں کی ذمہ داری والد پر ہوگی؟
(2) لڑکی کے گھر والے یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے جو جہیز کا سامان اپنی بچی کو دیا تھا، وہ ہم سسرال سے واپس لیں اور اپنی بیٹی کے ایصال ثواب کے لیے کسی مستحق کو دے دیں، کیا لڑکی کے گھر والے ایسا کر سکتے ہیں؟
(3) شوہر نے حق مہر کے پیسوں سے اپنی بیوی کو سونے کی انگوٹھی بنوا کر دی تھی اب لڑکی کے فوت ہونے کے بعد وہ کس کی ہوگی؟
نوٹ:- یہ سوال کہ لڑکی کے جہیز کا سامان سسرال سے لیکر مستحق کو دے دیں، لڑکی کے گھر والے اس لئے پوچھ رہے کیونکہ ان کی بیٹی سسرال میں خوش نہیں تھی، کافی تکالیف میں تھی، حتی کہ اس کے شوہر کا سلوک بھی ٹھیک نہیں تھا۔
جواب: (1) واضح رہے کہ ماں کے انتقال کے بعد سات سال کی عمر تک لڑکے کی اور بالغ ہونے تک لڑکی کی پرورش کا حق شرعاً بچی کی نانی کو حاصل ہوتا ہے، البتہ ان بچوں کا نان و نفقہ والد پر لازم ہوتا ہے، بشرطیکہ بچوں کی اپنی ملکیت میں کوئی مال نہ ہو، اگر بچوں کی اپنی ملکیت میں مال ہو تو باپ پر ان کا نان و نفقہ لازم نہیں ہوگا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عمر تک بچوں کی پرورش کا حق نانی کو حاصل ہوگا، اور مذکورہ تفصیل کے مطابق اگر بچوں کی ملکیت میں مال ہو تو ان کا نان و نفقہ اس میں سے ادا کیا جائے گا اور اگر بچوں کی ملکیت میں مال نہ ہو تو بچوں کا نان و نفقہ والد پر لازم ہوگا۔
(2) لڑکی کو شادی کے موقع پر جو کچھ والدین کی طرف سے جہیز کے طور پر دیا جاتا ہے، لڑکی اس کی مالک بن جاتی ہے، اور لڑکی کی وفات کے بعد والدین اس جہیز کو واپس لینے کے حقدار نہیں ہوتے ہیں، بلکہ وہ جہیز لڑکی کا ترکہ شمار ہوتا ہے، جو لڑکی کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا، لہذا لڑکی کے گھر والوں کا مرحومہ لڑکی کا جہیز ورثاء کی اجازت کے بغیر ایصال ثواب کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
(3) مہر کی رقم یا اس رقم سے بنائی گئی چیز عورت کی ملکیت ہوتی ہے، شوہر کا اس رقم یا چیز پر کوئی حق نہیں ہوتا، لہذا بیوی کے انتقال کے بعد مہر کی رقم سے بنائی ہوئی انگوٹھی بیوی کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (باب الحضانة، 555/3، 563 ط: دار الفکر)
باب الحضانة: بفتح الحاء وكسرها: تربية الولد (تثبت للأم)۔۔۔۔ (ثم)۔۔۔(أم الأم) ۔۔۔ (ثم أم الأب وإن علت)۔۔۔الخ
الدر المختار: (باب الحضانة، 566/3، ط: دار الفکر)
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد، زيلعي."
الهداية: (488/2، ط: دار الکتب العلمیة)
إنما تجب النفقة على الأب إذا لم يكن للصغير مال أما إذا كان فالأصل أن نفقة الإنسان في مال نفسه صغيرا كان أو کبیرا.
رد المحتار: (157/3، ط: دار الفکر)
قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد: المختار للفتوى أن يحكم بكون الجهاز ملكا لا عارية لأن الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية فالقول للأب. وأما إذا جرت في البعض يكون الجهاز تركة يتعلق بها حق الورثة هو الصحيح. اه.
وایضاً: (باب المهر، 100/3، ط: دار الفکر)
ثم عرف المهر في العناية بأنه اسم للمال الذي يجب في عقد النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد، واعترض بعدم شموله للواجب بالوطء بشبهة ومن ثم عرفه بعضهم بأنه اسم لما تستحقه المرأة بعقد النكاح أو الوطء وأجاب في النهر بأن المعروف مهر هو حكم النكاح بالعقد تأمل
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی