سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جگھڑا ہو رہا تھا تو بیوی اٹھ کر قرآن مجید پاؤں کے نیچے رکھ کر اس پر کھڑی ہو کر کہنے لگی کہ میں نے اس شوہر کو یہ بات نہیں کہی تو کیا اس سے اس عورت اور مرد کا نکاح ٹوٹ گیا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ قرآن کریم کی کسی بھی طریقے سے بے حرمتی کرنا کفر ہے، لہذا اگر کوئی مسلمان (نعوذ باللہ) ایسی کوئی بات یا کام کرے جس سے قرآن کریم کی بے حرمتی ہوتی ہو تو دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان اور تجدیدِ نکاح بھی لازم ہوتا ہے، اور اگر بے حرمتی کرنے والی شادی شدہ عورت ہو تو شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، البتہ اس کا نکاح فسخ (ختم) نہیں ہوتا ہے، بدستور نکاح قائم رہتا ہے، لیکن اس دوران جب تک عورت تجدید ایمان نہیں کرلیتی شوہر کے لیے میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہوتا ہے اور جب عورت توبہ تائب ہوجائے اور تجدید ایمان کرلے تو احتیاطاً تجدید نکاح بھی ضروری ہوتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت میں عورت نے اگر سمجھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے قرآن کریم کی بے حرمتی کی ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئی ہے ، اس کے لیے توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ تجدید ایمان لازم ہے اور احتیاطاً تجدید نکاح بھی ضروری ہے، لیکن اگر اس نے اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو بھی گناہ ہے، اس کے لیے توبہ و استغفار لازم ہے، البتہ وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الشفاء بتعريف حقوق المصطفي: (304/2، ط: دار الفكر)
وأعلم أن من استخف بالقرآن أو المصحف أو بشئ منه أو سبهما أو جحده أو حرفا منه أو آية أو كذب به أو بشئ منه أو كذب بشئ مما صرح به فيه من حكم أو خبر أو أثبت ما نفاه أو نفى ما أثبته على علم منه بذلك أو شك في شئ من ذلك فهو كافر عند أهل العلم بإجماع.
مجمع الأنهر: (687/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
فما يكون كفرا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حج ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لا يرتفع الكفر وما كان في كونه كفرااختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطا وما كان خطأ من الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق.
الحیلة الناجزة: (ص: 107، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی