سوال:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دنیوی چیزوں میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو مجھے بہت پسند ہیں۔ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔“ (سنن نسائی حدیث نمبر:3939) مفتی صاحب! اس کی تشریح بیان کر دیں خصوصی طور پرعورت کو حوالے سے مفصل بیان کیجیے گا، کیونکہ میرے دوست پوچھ رہے ہیں کہ عورتیں پسند ہونے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کو امام نسائی (م303ھ)نے’’سنن نسائی ‘‘میں بیان کیا ہے ،ذیل میں اس روایت کا ترجمہ اور تشریح ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا: ”دنیا کی چیزوں میں سے عورتیں (بیویاں)اور خوشبو میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے“۔
*تشریح:*
حدیث میں عورت کی محبوبیت کے ذکر کی محدثین کرام رحمہم اللہ نے بہت سی وجوہات بیان کی ہیں:
۱۔جناب رسول اللہ ﷺ کے لیے عورت(بیوی) کو محبوب بنانے میں ،ایک طرح سے آپ ﷺ کی آزمائش اور امتحان تھا کہ آپ ﷺ اپنی محبوب چیز کے ہوتے ہوئے کس طرح رسالت کی ذمہ داری کو پورا کررہے ہیں ،اور یہ محبوبیت کہیں آپ ﷺ کی فریضہ رسالت کی ذمہ داری کو پورا کرنے میں رکاوٹ تو نہیں بن رہی،چنانچہ آپ ﷺنے باوجود کثرتِ ازواج رسالت کی ذمہ داریوں کوبحسن وخوبی سرانجام دیا ۔
۲۔مشرکین آپ ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ (نعوذ باللہ)شاعر ،جادوگر اور کاہن ہیں تو جناب رسول اللہ ﷺ کے لیے عورتیں محبوب بنادی گئی تاکہ زیادہ نکاح فرمائیں اور آپ ﷺکی خلوت کی زندگی آپ کی ازواج مطہرات کے سامنے ہو اور وہ اس زندگی کے احوال لوگوں کے سامنے بیان کریں اور یوں مشرکین کے اعتراض کودور کیا جائے۔
۳۔ بہت سے مسائل جو مردوں کے سامنے نہیں آتے اور ان کے تذکرہ بھی شرم وحیا کی وجہ سے عام طور پر نہیں کیا جاتا ہےتو جناب رسول اللہ ﷺ کے لیے عورتیں محبوب بنادی گئی تاکہ عورتوں سے متعلق بہت سے مسائل امت کے سامنے آسکیں،حضرت مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے بہت عمدہ انداز میں لکھا ہے کہ
حضور اقدس (ﷺ) کی ذات والا صفات سراپا رحمت و برکت ہے، تبلیغ احکام اور تزکیہ نفوس اور ابلاغ قرآن آپ کا سب سے بڑا مقصد بعثت تھا، آپ نے اسلام کی تعلیمات کو قولاً و عملاً دنیا میں پھیلا دیا، یعنی آپ بتاتے بھی تھے اور کرتے بھی تھے، پھر چونکہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی کی رہبری کی ضرورت نہ ہو، نماز باجماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات، آل واولاد کی پرورش اور پاخانہ پیشاب اور طہارت تک کے بارے میں آپ کی قولی اور فعلی ہدایات سے کتب حدیث بھرپور ہیں، اندرون خانہ کیا کیا جواب دیا، اس طرح کے سیکڑوں مسائل ہیں جن سے ازواج مطہرات کے ذریعہ ہی امت کو رہنمائی ملی ہے، تعلیم و تبلیغ کی دینی ضرورت کے پیش نظر حضور اقدس (ﷺ) کے لئے کثرت ازواج ایک ضروری امر تھا، صرف حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے احکام و مسائل، اخلاق و آداب اور سیرت نبوی سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں جو کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں، حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کی مرویات کی تعداد تین سو اٹہتر تک پہنچی ہوئی ہے، حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین (ص ٩ ج ١) میں لکھا ہے کہ اگر حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کے فتاوی جمع کئے جائیں جو انہوں نے حضور اقدس (ﷺ) کی وفات کے بعد دیئے ہیں تو ایک رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا روایت در روایت اور فقہ و فتاوی میں جو مرتبہ ہے وہ محتاج بیان نہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے، حضور اقدس (ﷺ) کی وفات کے بعد مسلسل اڑتالیس سال تک علم دین پھیلایا۔
بطور مثال دو مقدس بیویوں کا مجمل حال لکھ دیا ہے دیگر ازواج مطہرات کی روایات بھی مجموعی حیثیت سے کافی تعداد میں موجود ہیں ظاہر ہے کہ اس تعلیم و تبلیغ کا نفع صرف ازواج مطہرات سے پہنچا۔
انبیاءاسلام کے مقاصد بلند اور پورے عالم کی انفرادی و اجتماعی، خانگی اور ملکی اصلاحات کی فکروں کو دنیا کے شہوت پرست انسان کیا جانیں، وہ تو سب کو اپنے اوپر قیاس کرسکتے ہیں ۔ اسی کے نتیجے میں کئی صدی سے یورپ کے ملحدین اور مستشرقین نے اپنی ہٹ دھرمی سے فخر عالم (ﷺ) کے تعداد ازواج کو ایک خالص جنسی اور نفسانی خواہش کی پیداوار قرار دیا ہے اگر حضور اقدس (ﷺ) کی سیرت پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایک ہوش مند منصف مزاج کبھی بھی آپ کی کثرت ازواج کو اس پر محمول نہیں کر سکتا۔
آپ کی معصوم زندگی قریش مکہ کے سامنے اس طرح گذری کہ پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ صاحب اولاد بیوہ (جس کے دو شوہر فوت ہو چکے تھے) سے عقد کر کے عمر کے پچیس سال تک انہی کے ساتھ گذارہ کیا، وہ بھی اس طرح کہ مہینہ مہینہ گھر چھوڑ کر غار حرا میں مشغول عبادت رہتے تھے، دوسرے نکاح جتنے ہوئے پچاس سالہ عمر شریف کے بعد ہوئے، یہ پچاس سالہ زندگی اور عنفوان شباب کا سارا وقت اہل مکہ کی نظروں کے سامنے تھا، کبھی کسی دشمن کو بھی آنحضرت (ﷺ) کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں ملا جو تقویٰ و طہارت کو مشکوک کر سکے، آپ کے دشمنوں نے آپ پر ساحر، شاعر، مجنون، کذاب، مفتری جیسے الزامات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن آپ کی معصوم زندگی پر کوئی ایسا حرف کہنے کی جرأت نہیں ہوئی جس کا تعلق جنسی اور نفسانی جذبات کی بےراہی روی سے ہو ۔
ان حالات میں کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ جوانی کے پچاس سال اس زہد و تقوی اور لذائذ دنیا سے یک سوئی میں گذارنے کے بعد وہ کیا داعیہ تھا جس نے آخر عمر میں آپ کو متعدد نکاحوں پر مجبورکیا، اگر دل میں ذرا سا بھی انصاف ہو تو ان متعدد نکاحوں کی وجہ اس کے سوا نہیں بتلائی جا سکتی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اس کثرت ازدواج کی حقیقت کو بھی سن لیجئے تاکہ کس طرح وجود میں آئی۔
پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر شریف ہونے تک تنہا حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) آپ کی زوجہ یں، ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح ہوا، مگر حضرت سودہ تو آپ کے گھر تشریف لے آئیں اور حضرت عائشہ صغر سنی کی وجہ سے اپنے والد کے گھر ہی رہیں، پھر چند سال کے بعد ٢ ھ میں مدینہ منورہ میں حضرت عائشہ کی رخصتی عمل میں آئی، اس وقت آپ کی عمر چون سال ہو چکی ہے اور دو بیویاں اس عمر میں آ کر جمع ہوئی ہیں ، یہاں سے تعدد ازدواج کا معاملہ شروع ہوا، اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح ہوا، پھر کچھ ماہ بعد حضرت زینب بنت خزیمہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح ہوا اور صرف اٹھارہ ماہ آپ کے نکاح میں رہ کر وفات پائی، ایک قول کے مطابق تین ماہ آپ کے نکاح میں زندہ رہیں، پھر ٤ھ میں حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح ہوا، پھر ٥ ھ میں حضرت زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا) سے نکاح ہوا، اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون ٨٥ سال ہو چکی تھی اور اتنی بڑی عمر میں آ کر چار بیویاں جمع ہوئیں، حالانکہ امت کو جس وقت چاربیویوں کی اجازت ملی تھی اس وقت ہی آپ کم از کم چار نکاح کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، ان کے بعد ٦ ھ میں حضرت جویریہ (رضی اللہ عنہا) سے اور ٧ ھ میں حضرت ام حبیبہ (رضی اللہ عنہا) سے اور پھر ٧ ھ میں حضرت صفیہ (رضی اللہ عنہا) سے پھر اسی سال حضرت میمونہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح ہوا۔
خلاصہ :یہ کہ چون سال کی عمر تک آپ نے صرف ایک بیوی کے ساتھ گذارہ کیا، یعنی پچیس سال حضرت خدیجہ کے ساتھ اور چار پانچ سال حضرت سودہ کے ساتھ گذارے، پھر اٹھاون سال کی عمر میں چار بیویاں جمع ہوئیں اور باقی ازواج مطہرات دو تین سال کے اندر حرم نبوت میں آئیں ۔اور یہ بات خاص طورسے قابل ذکر ہے کہ ان سب بیویوں میں صرف ایک ہی عورت ایسی تھیں جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا، یعنی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) ان کے علاوہ باقی سب ازواج مطہرات بیوہ تھیں، جن میں بعض کے دو دو شوہر پہلے گذر چکے تھے اور یہ تعداد بھی آخر عمر میں آ کر جمع ہوئی ہے۔(معارف القرآن از مفتی شفیع عثمانی:289-291/2،ط:مکتبہ معارف القرآن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*دلائل:*
*سنن النسائي الصغرى:(ص:829،رقم الحديث:3940،ط:دارابن كثير)*
أخبرنا علي بن مسلم الطوسي قال: حدثنا سيار قال: حدثنا جعفر قال: حدثنا ثابت، عن أنس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «حبب إلي النساء والطيب، وجعل قرة عيني في الصلاة»
*حاشية السيوطي على سنن النسائي:729/3،ط:دارالحديث)*
قال بعضهم في هذا قولان أحدهما أنه زيادة في الابتلاء والتكليف حتى يلهو بما حبب إليه من النساء عما كلف من أداء الرسالة فيكون ذلك أكثر لمشاقه وأعظم لأجره والثاني لتكون خلواته مع ما يشاهدها من نسائه فيزول عنه ما يرميه به المشركون من أنه ساحر أو شاعر فيكون تحبيبهن إليه على وجه اللطف به وعلى القول الأول على وجه الابتلاء وعلى القولين فهو له فضيلة.
*ذخيرة العقبى في شرح المجتبى:(181/28،ط:دارالمعراج)*
قال السنديّ قيل: إنما حُبّب إليه النساء لينقلن عنه ما لا يطّلع عليه الرجال من أحواله، وُيستحيا من ذكره. وقيل: حُبّب إليه زيادة في الابتلاء في حقّه حتى لا يلهو بما حُبّب إليه من النساء عما كُلّف به من أداء الرسالة، فيكون ذلك أكثر لمشاقّه، وأعظم لأجره. وقيل: غير ذلك
*(معارف القرآن از مفتی شفیع عثمانی:289-291/2،ط:مکتبہ معارف القرآن)*
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی