سوال:
السلام علیكم ورحمة الله وبركاتہ،
اگر کسی کی بہت ساری نمازیں قضا ہوگئی ہوں اور تعداد بھی معلوم نہ ہو، تو اس کو ادا کرنے کا کیا حکم اور کیا طریقہ ہے؟
جواب: اگر متعین طور پر قضاء شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو، اور یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو، تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اور جتنے سالوں یا مہینوں کی نمازیں قضاء ہوئی ہیں، احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضاء کرنا شروع کردیں۔
قضاء نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں، ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں، یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے، تو بھی درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 157، ط: دارالکتب العلمیة)
من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء۔
حاشیة الشلبي علی تبیین الحقائق: (468/1، ط: سعید)
وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقضي حتى يستيقن۔
الدر المختار: (76/2، ط: دار الفکر)
كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی