سوال:
مفتی صاحب! براہ کرم اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ آیت کے درمیان میں جو سکتہ آتا ہے، اس میں تھوڑی دیرسانس توڑے بغیر رکنا ہوتا ہے، ہمیں مطلب تو سمجھ نہیں آتا، لیکن یہاں رکنے کا مقصد کیا ہے؟
جواب: ہر زبان کے اہلِ زبان جب گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہر جاتے ہیں ، کہیں نہیں ٹھہرتے، کہیں کم ٹھہرتے ہیں، کہیں زیادہ، اور اس ٹھہرنے اور نہ ٹھہرنے کو بات کے صحیح بیان کرنے اور اس کا صحیح مطلب سمجھنے میں بہت دخل ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں بھی ٹھہرنے اور نہ ٹھہرنے کی علامات مقرر ہیں، جن کو رموزِ اوقاف قرآن مجید کہتے ہیں، ان میں سے ایک علامت "سکتہ" ہے۔ سکتہ کے لغوی معنی ہے، ٹھہرنا اور اصطلاحِ تجوید میں سکتہ والے کلمے پر سانس توڑے بغیر تھوڑی دیر رک جانے کو "سکتہ" کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
العین: (305/5، ط: مکتبة الھلال)
سكت: سكت عنه الغضب سكوتا، وسكن بمعناه. ورجل ساكوت، أي: صموت، وهو ساكت، إذا رأيته لا ينطق
کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم: (959/1، ط: مکتبة لبنان)
السكت:
بالفتح وسكون الكاف عند القراء هو قطع الصوت زمنا دون زمن من غير تنفس.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی