عنوان: صلہ رحمی کرنے کاحکم(1680-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک اہم سوال ہے، رہنمائی فرمائیں، بہت نوازش ہوگی۔
40 سال پہلے دو سگی بہنوں نے اپنے بیٹا بیٹی کی آپس میں شادی کی، مگر کچھ اختلاف کی بنیاد پر نباہ نہیں ہوسکا اور طلاق ہوگئی۔اور دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے سے تعلق ختم کرلیا، ایک نسل جوان ہوگئی، انکے بچے بھی ہوگئے، مختصر یہ کہ اب بھی دونوں خاندان ایک دوسرے سے نہیں ملتے، جبکہ ایک خاندان ملنا چاہتا ہے، مگر دوسرا کچھ سننے کو تیار نہیں، اگر کہیں خاندان میں کوئی غم یا خوشی کے موقع پر آمنا سامنا ہو جائے تو سلام کرلیتے ہیں، اگر کوئی سمجھائے تو کہتے ہیں کہ ہم قطع تعلق نہیں کررہے، بس ہم کو اچھا نہیں لگتا کہ ہم ان سے ملیں۔ اور ایک صحابی حضرت وحشی رضی اللّٰہ عنہ کی مثال دیتے ہیں، جنہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے آنے کا منع کیا تھا۔ کیا یہ قطع تعلق کے گناہگاروں میں شامل نہیں؟ کیا تکبر گا گناہ نہیں ہوگا؟ وضاحت فرمادیں تا کہ تعلق جوڑنے میں آسانی ہو، اور نہ ملنے پر کوئی وعید بھی حدیث کے ساتھ ذکر فرمادیں، آپکا جواب آخری کوشش ہوگی، مہربانی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔

جواب: اسلام نے ہمیں رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ ناپسندیدہ ہے ،چنانچہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يدخلُ الجنةَ قاطعُ رحمٍ (صحيح مسلم:2556)
ترجمہ: جنت میں رشتہ توڑنے اور کاٹنے والا نہ جائے گا۔
اس لیے دونوں خاندان کے لوگوں کو چاہیے کہ آپس میں صلہ رحمی کا مظاہرہ کریں اور رشتہ جوڑنے کی کوشش کریں، نہ کہ رشتہ توڑنے کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المعجم الکبیر للطبرانی: (185/18، ط: مکتبة ابن تیمیة)
عن محمد بن سيرين، إن الحكم بن عمرو الغفاري، وعمران بن حصين التقيا فقال أحدهما للآخر: أتذكر يوم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا طاعة لأحد في معصية الله» قال: الله أكبر

سنن الدارمی: (915/2، ط: دار المغنی)
عن عبد الله بن سلام قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة استشرفه الناس فقالوا: قدم رسول الله، قدم رسول الله، قال: فخرجت فيمن خرج، فلما رأيت وجهه، عرفت أن وجهه ليس بوجه كذاب، وكان أول ما سمعته يقول: «يا أيها الناس، أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام»

صحیح مسلم: (1981/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن الزهري، أن محمد بن جبير بن مطعم، أخبره أن أباه، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يدخل الجنة قاطع رحم»

شعب الایمان: (417/10، ط: الدار السلفیۃ)
عن عقبة بن عامر الجهني، قال: كنت أمشي ذات يوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا عقبة بن عامر، صل من قطعك، وأعط من حرمك واعف عمن ظلمك "

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 507 Jun 21, 2019
sila rehmi karne ka hukum, Ruling on doing merciful actions

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.