سوال:
علماء کو مولانا کہنا
مولیٰ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی آقا، کارساز، مددگار اور رب وغیرہ کے ہیں۔
آزاد کردہ غلام کے لیے بھی لفظ مولیٰ استعمال ہوتا ہے، جیسے سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ اور اسی معنی میں نبی ﷺ نے زید بن حارثہ ؓسے فرمایا:
اَنْتَ اَخُوْنَا وَمَوْلَانَا ‘‘تم ہمارے بھائی اور مولیٰ ہو۔’’
(صحیح بخاری: جلد ۲، کتاب المغازی، باب ۴۱۵، عمرۃ القضا، صفحہ ۶۷۲)
مؤخر الذکر کو چھوڑ کر اس لفظ کے باقی سارے معنی و مفہوم صرف ﷲ ہی کے لائق ہیں اور اس کے بندوں کو ان ناموں سے پکارنا شرک ہے۔
قرآن میں بھی مولیٰ ان ہی معنوں میں ﷲ نے اپنے لیے استعمال کیا ہے :
اَنْتَ مَوْلٰنَا (البقرہ :۲۸۶)‘‘(اے ﷲ) تو ہی ہمارا مولیٰ(رب) ہے ۔’’
بَلِ اللہُ مَوْلٰکُمْ وَ ھُوْ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ (آل عمران :۱۵۰)
‘‘ﷲ ہی تمہار مولیٰ(مددگار) ہے ، اور وہ سب سے اچھا مدد کرنے والا ہے ۔’’
ھُوَ مَوْلٰنَا (التوبہ :۵۱) ‘‘وہ (ﷲ) ہی ہمارا مولیٰ (کارساز) ہے ۔’’
فَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ مَوْلٰکُمْ (الانفال :۴۰) ‘‘پس جان لو کہ ﷲ ہی تمہارا مولیٰ ہے’’
نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ (الانفال: ۴۰/ الحج ۷۸)
‘‘ وہ (ﷲ) بہترین مولیٰ (مالک) اور بہترین مدد گار ہے ۔’’
ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْا اِلَی اللہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ (یونس :۳۰)
‘‘ وہاں (آخرت میں) ہر شخص اپنے اعمال کی آزمائش کرلے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے ، اور وہ ﷲ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مولیٰ ہے ’’
ثُمَّ رُدُّوْآ اِلَی اللہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ (الانعام: ۲۶)
‘‘پھر وہ سب ﷲ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مولیٰ ہے ۔’’
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لاَ مَوْلٰی لَھُمْ (محمد:۱۱)
‘‘اور یہ اس لیے کہ بے شک ﷲ مومنین کا مولیٰ ہے ، اور کافروں کا کوئی مولیٰ(مدد گار) نہیں ۔’’
وَاللہُ مَوْلٰکُمْ ( التحریم: ۲)‘‘اور ﷲ ہی تمہارا مولیٰ (مالک) ہے ۔’’
فَاِنَّ اللہَ ھُوَ مَوْلٰہٗ (التحریم: ۴)‘‘توبے شک ﷲ ہی اُس کا مولیٰ(حامی و کارساز) ہے ۔’’
حدیث میں بھی مولیٰ کے یہی معنی ہیں ۔ غزوۂ احد کے دن کفار بڑے فخر سے کہہ رہے تھے : لَنَا عُزّٰی وَلاَ عُزّٰی لَکُمْ یعنی ہمارے لیے عُزّیٰ (ہے اور تمہارے لیے عُزّیٰ نہیں ہے، اس پر نبی ﷺ نے صحابہ(کو حکم دیا کہ وہ کہیں : اَللہُ مَوْلٰنَا وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ یعنی ﷲ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ۔() ﷲ کے رسول ﷺ نے ﷲ کے سوا کسی دوسرے کو مولیٰ کہنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ مسلم نے روایت کیا:
لاَ یَقُلِ الْعَبْدُ لِسَیِّدِہٖ مَوْلاَیَ ………… فَاِنَّ مَوْلاَکُمُ اللہُ
‘‘غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ……… کیونکہ تمہارا مولیٰ اﷲ ہے ۔’’
لیکن مسلک پرست یہی لفظ مولیٰ جمع متکلم کی ضمیر متصل ‘‘ نا ’’ لگا کر بترکیب ‘‘مولانا’’ یا‘‘ مولٰنا’’ اپنے علماء کے لیے عام استعمال کرتے ہیں، اور اس کو برا سمجھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، بلکہ جو ایسا نہ کہے الٹا اسے ہی بُرا سمجھتے ہیں، اور منع کرنے کو عجیب رنگ دے کر کہتے ہیں، جو علمائے دین کی قدر نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں، اس کے بعد علماء کی بے ادبی سے متنبہ کرتے اور اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ جس نے انہیں مولانا کے بجائے مولوی کہا تو اس نے ان کی بے ادبی کی، کیونکہ مولوی کہنا سوئے ادب ہے۔
جب ان لوگوں نے قرآن و حدیث کے مقابلے میں اپنے اکابرین کی بات کو ترجیح دے کر اپنے علماء و مشائخ کو ﷲ کے مقابلے میں رب بنالیا( تو ضروری تھا کہ ان کو رب والے خطابات سے بھی نوازا جاتا ) ( چنانچہ اسی لیے انہیں مولانا یا مولٰینا لکھا اور پکارا جاتا ہے۔
مفتی صاحب ! کیا یہ بات ٹھیک ہے؟
جواب: واضح رہے بھیجی گئی تحقیق نامکمل اور ناقص ہے، اس میں ایک پہلو کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے دوسرے پہلو کو بیان نہیں کیا گیا، لہذا ذیل میں اس لفظ کی مکمل تحقیق اور اس کا حکم ذکر کیا جاتا ہے۔
" مولیٰ " عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مفہوم وسیع ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں متعدد معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مثلاً: آزاد کردہ غلام، دوست، مقتدیٰ، رہنما، مددگار اور سردار وغیرہ، لہذا موقع محل کے اعتبار سے ان معنوں کی تعیین کی جائے گی۔
جب" مولیٰ " کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہوگی تو اُس سے مراد مددگار کے معنی ہوں گے، جب اُس کی نسبت اپنے کسی قریبی عزیز کی طرف ہوگی، تو دوست کے معنی میں استعمال ہوگا۔
اور جب کسی رہنما، بڑے بزرگ یا مقتدیٰ کی طرف نسبت ہوگی، تو مولیٰ سے مراد رہنما اور سردار ہوتا ہے، اس لفظ کے آخر میں جو " نا " کا اضافہ کر کے " مولانا " کہا جاتا ہے، اس کا معنی ہے ہمارے بڑے۔
چنانچہ علماء کو جو مولانا کہا جاتا ہے، اُس میں مقتدیٰ کے معنی مد نظر ہوتے ہیں اور اس کا معنی ہوتا ہے " ہمارے مقتدیٰ و پیشوا، لہٰذا اِس معنی کی رو سے کسی عالم یا بزرگ کو مولانا کہنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اِس میں شرک وغیرہ کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا، کیونکہ " مولی " جب مخلوق کے لئے استعمال ہو، تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے، جو خالق کے لئے استعما ل کرتے وقت سمجھے جاتے ہیں، مزید یہ کہ صدیوں سے علماء کے طبقہ میں اِس لفظ کا استعمال بلا روک ٹوک کے جاری ہے۔
نیز احادیث میں بھی غیراللہ کے لیے لفظ ”مولانا“ کا استعمال ہوا ہے ۔
لما فی سنن الترمذی:
" عن أبی سریحة، أو زید بن أرقم - شک شعبة - عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ : ہذا حدیث حسن غریب."
(سنن الترمذی : ۲ /۲۱۲ ، أبواب المناقب / مناقب علی بن أبی طالب )
وفی مسند الإمام أحمد بن حنبل:
" عن ریاح بن الحارث، قال: جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا: السلام علیک یا مولانا قال: کیف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم غدیر خم یقول: " من کنت مولاہ، فإن ہذا مولاہ " قال ریاح: فلما مضوا تبعتہم، فسألت من ہؤلاء؟ قالوا: نفر من الأنصار فیہم أبو أیوب الأنصاری ."
( مسند الإمام أحمد بن حنبل: ٣٨ / ۵۴١ ، الناشر: مؤسسة الرسالة)
وفی روح المعانی :
" أَنْتَ مَوْلانا أی مالکنا وسیدنا، وجوز أن یکون بمعنی متولی الأمر وأصلہ مصدر أرید بہ الفاعل.
(روح المعانی :٢/ ۶٨ الناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت)
وفی مرقاۃ المفاتیح :
" وفی الریاض عن رباح بن الحارث قال: جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا: السلام علیک یا مولانا، فقال کیف أکون مولاکم وأنتم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - یقول یوم غدیر خم: " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " قال رباح بن الحارث: فلما مضوا تبعتہم فسألت من ہؤلاء؟ قالوا: نفر من الأنصار فیہم أبو أیوب الأنصاری؟ أخرجہ أحمد."
( مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح : ۳ /۹۴۱۱، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)
وفی المرقاۃ ایضا :
وفی النہایة: المولی یقع علی جماعة کثیرة فہو الرب والمالک والسید والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والخال وابن العم والحلیف والعقید والصہر والعبد والمعتق والمنعم علیہ، وأکثرہا قد جاء ت فی الحدیث فیضاف کل واحد إلی ما یقتضیہ.الحدیث الوارد فیہ".
(مرقاة المفاتیح: ۲ /۷۴۱۱ ، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)
وفی الفتاوی الہندیۃ :
" ولو قال لأستاذہ مولانا لا بأس بہ وقد قال علی - رضی اللہ عنہ - لابنہ الحسن - رضی اللہ عنہ - قم بین یدی مولاک عنی أستاذہ. وکذا لا بأس بہ إذا قال لمن ہو أفضل منہ."
(الفتاوی الہندیة: ۵/ ٣٧٨ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (مناقب علی بن أبی طالب، 212/2)
"عن أبی سریحة، أو زید بن أرقم - شک شعبة - عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ : ہذا حدیث حسن غریب."
مسند أحمد: (541/38، ط: مؤسسة الرسالة)
"عن ریاح بن الحارث، قال: جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا: السلام علیک یا مولانا قال: کیف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم غدیر خم یقول: " من کنت مولاہ، فإن ہذا مولاہ " قال ریاح: فلما مضوا تبعتہم، فسألت من ہؤلاء؟ قالوا: نفر من الأنصار فیہم أبو أیوب الأنصاری ."
روح المعانی: (68/2، ط: دار الکتب العلمیة)
أَنْتَ مَوْلانا أی مالکنا وسیدنا، وجوز أن یکون بمعنی متولی الأمر وأصلہ مصدر أرید بہ الفاعل.
مرقاۃ المفاتیح: (9411/3، ط: دار الکتب العلمیة)
وفی الریاض عن رباح بن الحارث قال: جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا: السلام علیک یا مولانا، فقال کیف أکون مولاکم وأنتم عرب؟ قالوا: سمعنا رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - یقول یوم غدیر خم: " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " قال رباح بن الحارث: فلما مضوا تبعتہم فسألت من ہؤلاء؟ قالوا: نفر من الأنصار فیہم أبو أیوب الأنصاری؟ أخرجہ أحمد."
و فیھا ایضا: (7411/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وفی النہایة: المولی یقع علی جماعة کثیرة فہو الرب والمالک والسید والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والخال وابن العم والحلیف والعقید والصہر والعبد والمعتق والمنعم علیہ، وأکثرہا قد جاء ت فی الحدیث فیضاف کل واحد إلی ما یقتضیہ.الحدیث الوارد فیہ".
الھندیۃ: (378/5)
" ولو قال لأستاذہ مولانا لا بأس بہ وقد قال علی - رضی اللہ عنہ - لابنہ الحسن - رضی اللہ عنہ - قم بین یدی مولاک عنی أستاذہ. وکذا لا بأس بہ إذا قال لمن ہو أفضل منہ."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی