سوال:
اگر کوئی بندہ کمپنی جوائن کرتے ہوئے یہ شرط (تین دن تاخیر سے آنے پر ایک دن کی تنخواہ کٹے گی) قبول کرتے ہوئے دستخط کرلے تو کیا حکم ہے؟ کیونکہ اگر یہ شرط قبول نہیں کرتا تو اسے عام طور پر نوکری نہیں دی جاتی۔
جواب: واضح رہے کہ ملازم کے تین دن تاخیر سے آنے کی صورت میں صرف تاخیر کے بقدر ہی تنخواہ کاٹی جاسکتی ہے، تاخیر کی وجہ سے پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنا مالی جرمانہ ہے جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے، اس لئے ملازم کو حتی الامکان معاہدے سے اس شرط کو ختم کرانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاہم اگر ملازمت کا کام جائز ہو تو محض اس شرط کی وجہ سے جائز کام کے عوض حاصل ہونے والی تنخواہ کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مجلة الاحکام العدلیة: (الكتاب الثانى فى الاجارة، الباب الاول فى الضوابط العمومية، رقم المادة: 425)
الاجیر الخاص یستحق الاجرة اذا کان فی مدة الاجارة حاضرا للعمل ولا یشترط عمله بالفعل، ولکن لیس له یمتنع من العمل واذا امتنع فلا یستحق الاجرة۔
اعلاء السنن: (باب التعزیر بالمال، 733/11، ط: بیروت)
التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمة الثلاثة لایجوز، وترکه الجمهور للقرآن والسنة : وأما القرآن فقوله تعالی :{فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنة فإنه علیه السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنه خبر یدفعه الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استهلك شیئاً لم یغرم إلا مثله أو قیمته ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی