سوال:
ایک عورت کا دودھ پیتا بچہ فوت ہوگیا، اس عورت نے اپنا دودھ نکال کر تھوڑا سا پانی ملایا اور پھر اس نے محلے کے شیر خوار بچوں کو وہ دودھ پلادیا، دودھ پینے والوں میں ایک بچی بھی تھی جو ڈیڑھ سال کی تھی، اس لڑکی کی شادی بلوغت کے بعد اس عورت کے بیٹے سے ہو گئی ہے جس نے اپنے شیر خوار بچے کی وفات پر دودھ نکال کر اس لڑکی کو پلایا تھا۔ اس واقعہ کی گواہی اس لڑکی کی والدہ اور دودھ پلانے والی دیتی ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس سے حرمت رضاعت ثابت ہوگئی تھی یا نہیں؟ یہ بات یاد رہے کہ جس عورت نے دودھ نکال کر پانی ملایا تھا، اس میں پانی کی مقدار کم اور دودھ کی مقدار زیادہ تھی۔
جواب: واضح رہے کہ اگر عورت کے دودھ میں اس قدر پانی ملا دیا جائے کہ دودھ کی مقدار پانی پر غالب ہو تو ایسا دودھ مدت رضاعت میں بچے کو پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، تاہم مدت رضاعت کے ثبوت کے لیے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ہونا ضروری ہے، لہذا اگر شرعی گواہ موجود نہ ہوں تو ایسی صورت میں حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شرعی گواہ موجود نہیں ہیں، لہذا میاں بیوی کے درمیان حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوئی ہے، تاہم اگر گواہی دینے والی دونوں عورتیں یا ایک عورت دین دار اور پرہیزگار ہو اور ان کے کہنے کی وجہ سے دل گواہی دینے لگے کہ یہ سچ کہتی ہوں گی تو ایسی عورت کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے میاں بیوی کے لیے آپس میں مفارقت (جدائی) اختیار کر لینا افضل و بہتر ہے، البتہ چونکہ میاں بیوی پر ان عورتوں کی گواہی ماننا شرعاً لازم نہیں ہے، لہذا اگر میاں اپنی بیوی کو طلاق نہ دے تو ان کا ساتھ رہنا جائز ہے، شرعاً اس کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (9/4، ط: دار الكتب العلمية)
وكذا إذا اختلط بالماء يعتبر فيه الغالب أيضا فإن كان اللبن غالبا يثبت به الحرمة وإن كان الماء غالبا لا يثبت به وهذا عندنا.
و فيه أيضاً: (14/4)
وأما البينة: فهي أن يشهد على الرضاع رجلان أو رجل وامرأتان ولا يقبل على الرضاع أقل من ذلك ولا شهادة النساء بانفرادهن... ولنا ما روى محمد عن عكرمة بن خالد المخزومي عن عمر ﵁ أنه قال: لا يقبل على الرضاع أقل من شاهدين وكان ذلك بمحضر من الصحابة ولم يظهر النكير من أحد؛ فيكون إجماعا ولأن هذا باب مما يطلع عليه الرجال فلا يقبل فيه شهادة النساء على الانفراد كالمال وإنما قلنا ذلك؛ لأن الرضاع مما يطلع عليه الرجال أما ثدي الأمة فلأنه يجوز للأجانب النظر إليه .... وإذا شهدت امرأة على الرضاع فالأفضل للزوج أن يفارقها لما روي عن محمد أن عقبة بن الحارث قال: تزوجت بنت أبي إهاب فجاءت امرأة سوداء فقالت: إني أرضعتكما فذكرت ذلك لرسول الله ﷺ فقال ﷺ «فارقها فقلت إنها امرأة سوداء وإنها كيت وكيت فقال ﷺ كيف وقد قيل: وفي بعض الروايات قال عقبة فذكرت ذلك لرسول الله ﷺ فأعرض ثم ذكرته فأعرض حتى قال في الثالثة أو الرابعة: فدعها إذا» وقوله: فارقها أو فدعها إذا ندب إلى الأفضل والأولى.
ألا ترى أنه ﷺ لم يفرق بينهما بل أعرض ولو كان التفريق واجبا لما أعرض فدل قوله ﷺ فارقها على بقاء النكاح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی