سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا زکوة کی رقم سے کسی مستحق کا بجلی کا بل دیا جا سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ کی رقم کو مستحق زکوۃ کی ملکیت یا اس کے وکیل کے قبضہ میں دینا ضروری ہے، جب تک مستحق کی ملکیت یا اس کے وکیل کے قبضہ میں رقم دے کر اس کو با اختیار نہ بنا دیا جائے، اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ لیے ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو مستحقِ زکوة کی ملکیت یا اس کے وکیل کے قبضہ میں دے دیں، تاکہ وہ اس سے اپنا بل یا دوسری ضروریات پوری کرسکے، اس طرح کرنے سے آپ کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، لیکن اگر آپ براہِ راست مستحقِ زکوة کا بل ادا کرتے ہیں تو اس سے آپ کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ o
الدر المختار: (270/2، ط: دارالفکر)
ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء
و فیه ایضاً: (344/2، ط: دار الفکر)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی