عنوان: والد صاحب کے ساتھ شراکت کی صراحت کے ساتھ کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا (16977-No)

سوال: مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ والد صاحب اور ایک بیٹے نے مل کر برابر برابر رقم ایک کاروبار میں لگائی، اس کے بارے میں والد، والدہ اور بھائی کو ہی معلوم ہے، لیکن اس کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔
جس دن والد صاحب کا انتقال ہوا تھا، اس دن صبح والدہ نے والد صاحب سے پوچھا کہ کاروبار میں جو رقم لگی ہوئی ہے، کیا وہ سب بیٹے کی ہے؟ تو والد صاحب نے کہا ہاں، لیکن اس بات کا والدہ کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ والد صاحب کی لگائی ہوئی رقم اور اس کے منافع کا کیا حکم ہوگا؟

جواب: واضح رہے کہ اگر بیٹے نے اپنی رقم والد کے ساتھ کاروبار میں شراکت کی صراحت کے ساتھ لگائی ہو تو بیٹا اپنی رقم کے تناسب سے اس کاروبار اور اس سے حاصل ہونے والے نفع میں شراکت دار ہوگا اور دونوں میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعد اس کی شراکت کا حصہ اور اس سے حاصل ہونے والا منافع اس کے شرعی ورثاء میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر بیٹے نے شراکت کی وضاحت کے ساتھ والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہو تو بیٹا اپنے حصہ کے تناسب سے اس کاروبار اور اس کے منافع کا مالک ہوگا، جس میں اس کی زندگی میں کسی اور کا کوئی حق و حصہ نہیں ہوگا، اس کے علاوہ بقیہ کاروبار اور منافع والد صاحب کی ملکیت شمار ہوگا، جو ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

درر الحكام: (الكتاب العاشر، الباب السادس، الفصل السادس، المبحث الثاني، 431/3 ط: دار الجيل)

المادة (1398): (إذا عمل أحد في صنعته مع ابنه الذي في عياله فكافة الكسب لذلك الشخص و يعد ولده معينا، كما أنه إذا غرس أحد شجرا فأعانه ولده الذي في عياله فيكون الشجر لذلك الشخص ولا يشاركه ولده فيه)
إذا عمل أحد في صنعة هو وابنه الذي في عياله واكتسبا أموالا ولم يكن معلوما أن للابن مالا سابقا فكافة الكسب لذلك الشخص ولا يكون لولده حصة في الكسب بل يعد ولده معينا وليس له طلب أجر المثل حتى أنه لو تنازع الأب في المتاع الموجود في بيته مع أولاده الخمسة الذين يقيمون معه في ذلك البيت وادعى كل منهم أن المتاع له فالمتاع للأب ولا يكون للأولاد غير الثياب التي هم لابسوها (التنقيح) ما لم يثبتوا عكس ذلك ويوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معينا لأبيه:
1 - اتحاد الصنعة، فإذا كان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فكسب الأب من المزارعة والابن من صنعة الحذاء، فكسب كل منهما لنفسه وليس للأب المداخلة في كسب ابنه لكونه في عياله.
وقول المجلة (مع ابنه) إشارة لهذا الشرط، مثلا إن زيدا يسكن مع أبيه عمرو في بيت واحد ويعيش من طعام أبيه وقد كسب مالا آخر فليس لإخوانه بعد وفاة أبيه إدخال ما كسبه زيد في الشركة، كذلك لو كان اثنان يسكنان في دار و كل منهما يكسب على حدة وجمعا كسبهما في محل واحد ولم يعلم مجموعه لمن كما أنه لم يعلم التساوي أو التفاوت فيه فيقسم سوية بينهما ولو كانا مختلفين في العمل والرأي
2 - فقدان الأموال سابقا، إذا كان للأب أموال سابقة كسبها ولم يكن معلوما للابن أموال بأن ورث من مورثه أموالا معلومة فيعد الابن في عيال الأب
3 - أن يكون الابن في عيال أبيه، أما إذا كان الأب يسكن في دار والابن في دار أخرى وكسب الابن أموالا عظيمة فليس للأب المداخلة في أموال ابنه بداعي أنه ليس للابن مال في حياة أبيه.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 199 May 20, 2024
walid sahab ke sath shirkat ki sarahat ke sath karobar mein sarmaya kari karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.