سوال:
مفتی صاحب! والد، بیٹے اور ایک بیٹی نے 2004 میں شراکت کی بنیاد پر ایک دکان اٹھارہ لاکھ کی خریدی، بیٹی کو 2020 میں پیسوں کی ضرورت پڑی تو وہ اس وقت کے اعتبار سے اپنا حصہ لے کر الگ ہوگئی، اس کے بعد دکان والد اور بیٹے کے درمیان مشترک ہوگئی، اب بھائی والد کا حصہ ورثاء میں تقسیم کرنا چارہا ہے، والد صاحب کا انتقال 2012 میں ہوگیا تھا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ میراث تقسیم کرتے وقت دکان کی کس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا، جس وقت والد کا انتقال ہوا، اس وقت کی قیمت کا یا جس وقت بہن نے اپنا حصہ لیا تھا، اس وقت کی قیمت کا یا میراث کی تقسیم کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر میراث کئی سالوں بعد تقسیم ہو رہی ہو تو اس میں چیزوں کی قیمت کا تعین موجودہ قیمت کے اعتبار سے ہوتا ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں بھائی پر مرحوم والد کے دکان کے حصہ کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت لگا کر ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدۃ القاری: (229/23، ط: دار احیاء التراث العربی)
المواريث فرائض وفروضا لما أنها مقدرات لأصحابها ومبينات في كتاب الله تعالى ومقطوعات لا تجوز الزيادة عليها ولا النقصان منها.
درر الحکام فی شرح مجلة الاحکام: (26/3، ط: دار الجیل)
"(المادة 1073) (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88).
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی