سوال:
احسان نے کھیت میں لہسن بویا اور خرم کے ساتھ سودا کیا کہ جب لہسن پیدا ہو جائے گا تو میں آپ کو چار ہزار کلو لہسن دوں گا، اور اگر آفت آئی اور لہسن پیدا نہ ہوا تو میں آپ کو پیسے واپس دے دوں گا، سودا ہوجاتا ہے، خرم کچھ پیسے بھی ایڈوانس دے دیتا ہے اور ریٹ بھی فکس ہو جاتا ہے کہ 2250 روپے فی کلو اور جب لہسن حاصل ہو جاتا ہے تو احسان خرم کو لہسن دے دیتا ہے اور خرم باقی پیسے دے دیتا ہے، کیا اس طرح کا سودا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ کھیتی میں پھل لگنے سے پہلے اس کو فروخت کرنے کی ممکنہ تین صورتیں ہیں، جن میں سے ایک ناجائز اور دو جائز ہیں، ان کی تفصیل اور حکم درج ذیل ہے:
1) بیع تام کرنا:
کھیتی میں پھل لگنے سے پہلے اس کو حتمی طور پر فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ شریعت نے قبضہ اور وجود میں آنے سے پہلے کسی چیز کو فروخت کرنے سے منع کیا ہے۔
2) وعدہ بیع کرنا:
ایک صورت یہ ہے کہ کھیتی کو حتمی طور پر فروخت نہ کیا جائے، بلکہ اس کے فروخت کرنے کا وعدہ کرلیا جائے، یعنی یوں کہا جائے کہ جب میری کھیتی پک کر تیار ہو جائے گی تو آپ کو فروخت کرونگا، اس میں صرف وعدہ ہوتا ہے، کوئی باقاعدہ بیع نہیں ہوتی، لہذا اس طرح کا "وعدہ بیع" کرنا جائز ہے۔
3) بیع سلم کرنا:
تیسری صورت یہ ہے کہ بیعِ "سلم" کرلی جائے، "بیع سلم" کا مطلب یہ ہے کہ بائع اور مشتری آپس میں اس طرح کا معاملہ کریں کہ فروخت کی جانے والی چیز (مثلاً: اناج یا سبزی وغیرہ) کی کوالٹی، مقدار اور قیمت ابھی سے متعین کرلیں، اور پھر بائع مشتری کو پوری رقم (طے شدہ قیمت) مجلس عقد میں حوالہ کرکے مبیع کے حوالہ کرنے کا وقت اور دوسری تفصیلات طے کرلیں، یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہے، شریعت نے ضرورت کی وجہ سے اس کی اجازت دی ہے، فقہ کی اصطلاح میں اس کو "بیعِ سلم" کہتے ہیں۔
پوچھی گئی صورت میں آپ نے جو صورت بیان کی ہے یہ نہ مکمل طور پر بیع سلم ہے اور نہ ہی وعدہ بیع، اس لیے یہ ناجائز ہے، آپ دونوں کو چاہیے کہ اس معاملے کو ختم کرکے آپس میں بیع سلم کرلیں یا پھر صرف وعدہ بیع لیں۔
نوٹ: بیع سلم کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ معاملہ کرتے وقت اس کی تمام شرائط کو پورا کیا جائے، اس لیے بیع سلم کرنے سے پہلے اس کی شرائط جاننے کےلئے درج ذیل فتویٰ کا مطالعہ فرمائیں:
https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=2065
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (555/4، ط: سعید)
(قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح.
و فیه ایضاً: (215/5، ط: سعید)
"السلم بیع آجل و ھو المسلم فیه بعاجل و ھو رأس المال، ورکنه رکن البیع … ویصح فیما أمکن ضبط صفته ومعرفة قدرہ کمکیل وموزون … وشرطه: أي شروط صحته التي تذکر فی العقد سبعة بیان جنس، وبیان نوع وصفته وقدرہ وأجل … وبیان قدر رأس المال … والسابع بیان مکان الإیفاء للمسلم فیه"۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی