سوال:
حضرت! سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ صرف سود لینے والا گناہ گار ہے، آسمانی کتاب میں سود دینے والے کے بارے میں کوئی وعید نہیں آئی ہے، کیونکہ سود دینے والا مجبور ہے، لہذا آپ سود پر گھر یا دوسری چیزیں لے سکتے ہیں۔ برائے کرم اس بارے میں آپ شرعی رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ قرآن کریم میں جہاں سود کی حرمت کا ذکر ہے، وہاں اس بات کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ سود صرف لینے والے کے حق میں حرام ہے، دینے والے حق میں حرام نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم میں سود کی حرمت کا حکم مطلقاً بغیر کسی قید کے مذکور ہے، جو سود لینے اور دینے والے دونوں کو شامل ہے۔ نیز احادیثِ مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ سود لینے والے کے ساتھ سود دینے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے، اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4093) اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ (جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1206)
اس کے علاوہ دیگر روایات میں بھی سود لینے والے کے ساتھ سود دینے والے کو بھی اس گناہ میں شامل کیا گیا ہے، لہذا یہ کہنا کہ سود کا گناہ صرف لینے والے کو ہوگا، دینے والے کو نہ ہوگا، محض قرآن و سنت سے جہالت پر مبنی بلا دلیل دعوی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1598، ط: دار احیاء التراث العربی)
حدثنا محمد بن الصباح ، وزهير بن حرب ، وعثمان بن ابي شيبة ، قالوا: حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو الزبير ، عن جابر ، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء ".
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1206، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن سماك بن حرب، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، عن ابن مسعود، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وشاهديه وكاتبه ". قال: وفي الباب، عن عمر، وعلي، وجابر، وابي جحيفة. قال ابو عيسى: حديث عبد الله حديث حسن صحيح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی