عنوان: خواب کی شرعی حیثیت(170-No)

سوال:
ایک لڑکی کا خواب ہے، اس نے تعبیر معلوم کرنے کا پوچھا ہے۔
خواب میں وہ شادی کرنا چاہتی تھی اور اس کے والدین اس شادی کے لئے راضی ہو گئے تھے، خواب میں ایک بوڑھا آدمی تھا، جو اپنے ہاتھ میں قرآن پاک کا حامل تھا اور وہ ایک پاک انسان معلوم ہوتا تھا، اس لڑکی کے والد نے کہا کہ ہم اس آدمی سے پوچھیں گے کہ آیا یہ تعلق اچھا ہے یا نہیں؟ اس شخص نے کتاب میں دیکھ کر کہا لڑکا بہت اچھا ہے، لیکن لڑکے کے خاندان نے اس شادی کی اجازت آسانی سے نہیں دینی۔
کچھ دیر بعد اس بوڑھے شخص نے دوبارہ کتاب میں دیکھا اورکہا کہ دولہا اچھا نہیں ہے، اس سے شادی نہ کرو،خصوصا تب تک جب تک کہ میرے بتائے ہوئے یہ یہ کام کر دو۔
پھر لڑکی نے کہا کہ والد صاحب ہمیں ایک بار لڑکے سے ملنا چاہیے، وہ بہت اچھا لڑکا ہے، اس کے والد نے کہا کہ ہم نہیں ملیں گے، کیونکہ اس آدمی نے کہا کہ وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔
اس خواب کی کوئی سچائی یا حقیقت ہے؟ اور خوابوں میں رشتہ وغیرہ پر کتنا یقین کیا جا سکتا؟ خواب، استخارہ اور مشورہ میں سے کس کی زیادہ اہمیت ہے؟
یہاں یہ بھی بتانا بھی مقصود ہے کہ یہ لوگ پیروں فقیروں پہ بہت زیادہ اعتقاد رکھنے والے لوگ ہیں۔

جواب: واضح رہے کہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں، مومن کے سچے خواب کو حدیث شریف میں نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہا گیا ہے، البتہ خواب کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
1_اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامات: جوسچے خواب ہیں اور نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔
2_انسانی خیالات: انسان دن بھر جو سوچتا ہے، وہی رات کو خواب میں دیکھائی دیتا ہے۔
3_شیطانی خیالات: جن میں عموما فسق و فجور یا گندگیاں نظر آتی ہیں اور چونکہ ان تینوں کے درمیان فرق کرنے کی کوئی یقینی صورت موجود نہیں، اس لئے شریعت میں خواب حجت اور دلیل نہیں ہیں، لہذا خواب کی بنیاد پرکوئی فیصلہ کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ صرف انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی کے حکم میں ہوتا ہے۔
استخارہ اور مشورہ دونوں ہی سنت عمل ہیں، البتہ مشورے کا درجہ استخارے سے مقدم ہے، مگر مشورہ اور استخارہ میں کسی ایک پر بھی عمل شرعی طور پر لازم اورضروری نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (107/4، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الرؤيا ثلاث، فرؤيا حق، ورؤيا يحدث بها الرجل نفسه، ورؤيا تحزين من الشيطان

سنن الترمذی: (604/1، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به، قال: ويسمي حاجته.

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (9/22، ط: دار السلاسل)
وقد حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الرؤيا الصالحة جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة وروي غير ذلك۔۔۔۔۔ فالناس على هذا ثلاث درجات.
- الأنبياء ورؤاهم كلها صدق، وقد يقع فيها ما يحتاج إلى تعبير.
- والصالحون والأغلب على رؤاهم الصدق، وقد يقع فيها ما لا يحتاج إلى تعبير.
- ومن عداهم وقد يقع في رؤاهم الصدق والأضغاث.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 496 Dec 26, 2018
khawab ke sharee haqeeqat/khuwab ki shari hesiyat, ruling of dreams

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Miscellaneous

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.