سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے مرتے وقت دو بیویاں، چار لڑکے، ایک لڑکی اور ماں باپ پیچھے چھوڑے، اس کے بہن بھائی بھی ہیں، اب اس کی میراث کیسے تقسیم کی جائے گی؟ از راہ کرم رہنمائی فرمائے گا۔
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو چار سو بتیس (432) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بیویوں میں سے ہر ایک بیوی کو ستائیس (27)، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو باون (52)، بیٹی کو چھبیس (26)، والد کو بہتر (72) اور والدہ کو بہتر (72) حصے ملیں گے، جبکہ بہن بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو ہر بیوی کو %6.25 فیصد حصہ، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو %12.03 فیصد حصہ، بیٹی کو %6.01 فیصد حصہ، والد کو %16.66 فیصد حصہ اور والدہ کو %16.66 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ۔۔۔ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٌ ۚ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ... الخ
الفتاوی الھندیة: (450/6، ط: دار الفکر)
ويسقط الإخوة والأخوات بالابن وابن الابن وإن سفل وبالأب بالاتفاق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی