سوال:
مفتی صاحب! پوچھنا یہ ہے کہ "یوگا" (yoga) اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے شرائط کے ساتھ جسمانی طاقت و قوت کے لئے جسمانی ورزش (Physical Exercise) کی ایک حد تک اجازت دی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:6774) البتہ ورزش کرتے ہوئے ایسی تمام چیزیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں، اس سے منع بھی فرمایا ہے۔
لہذا اگر "یوگا" (Yoga) ورزش کا کسی کفریہ یا شرکیہ عبادت، نظریہ یا فلسفہ سے کوئی تعلق نہ ہو، اور محض اسے جسمانی ورزش کے طور پر کیا جائے تو شرعی اصولوں کی رعایت رکھتے ہوئے یوگا (Yoga) ورزش کرنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن اگر اس "یوگا" (Yoga) نامی ورزش میں جسمانی و ذہنی ورزشوں کے نام پر کفریہ، شرکیہ اور فلسفیانہ نظریات کی ترویج ہو، جیسا کہ یوگا کی ابتدائی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگا کی جڑیں ہندو تعلیمات سے جڑی ہوئی ہیں، اور یوگا کے مقاصد میں سے ایک مقصد گیتا کی تعلیم بھی ملتا ہے، نیز اگر یوگا کرنے والے کے لیے ضروری ہو کہ وہ مشرق کی جانب آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو آداب بجا لائے یا اس ورزش میں اور کوئی شرکیہ یا کفریہ چیز ہو، جیسے غیراللہ سے مدد طلب کرنا وغیرہ، تو ایسی "یوگا" (Yoga) نامی ورزش کرنا حرام اور ناجائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 6774)
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المؤمن القوي خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف.
المستدرك على الصحيحين للحاكم: (129/4)
عن أبي ثعلبة الخشني، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله حد حدودا فلا تعتدوها وفرض لكم فرائض فلا تضيعوها وحرم أشياء فلا تنتهكوها وترك أشياء من غير نسيان من ربكم ولكن رحمة منه لكم فاقبلوها ولا تبحثوا فيها»
تکملة فتح الملهم: (قبیل کتاب الرؤیا، 435/4، ط: دار العلوم کراتشی)
"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه"
فتاوی عصریة: (ص: 451)
تعد الیوجا من طرق التمسک الھندوکیة؛ فلا یجوز اتخاذھا طریقاً للعبادة، فإتخاذھا بھذہ الصفة التعبدیة ضلال قطعاً، أما من یقوم بحرکات تشبھھا ولم تخطر بباله ارتباطها بتمسک الھندوک؛ فھو من باب التشبه المنھی عنه شرعاً؛ والأصل فی ذلک ما ورد عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنه نھی فی کثیر من أحادیثه عن التشبه بغیر المسلمین فی ملبسھم ومشربھم ومأکلھم، فھذا التشبه من باب الحرام۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی