سوال:
السلام علیکم! حضرت آج کل سوشل میڈیا پہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے خلاف منظم پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ان کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں، ان کی غلطیوں کو نمایاں کر کے بتایا جاتا ہے، تاکہ لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کے دلوں میں ان کی اہمیت ختم کی جائے سکے، حضرت! صحابہ کے فضائل کے بارے میں بتا دیں اور جو بے ادبی کرتے ہیں، ان کے لیے کیا وعیدیں ہیں؟ اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔
جواب: صحابہ کرامؓ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی اس جماعت کا نام ہے، جنہوں نے ایمان اور بیداری کی حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو، اور ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ صحابہ کرامؓ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان ایک مقدس واسطہ ہیں، یہ مقدس مقام اور امتیاز خود اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے عطا كرده ہے۔
حضراتِ صحابہ رضي الله عنهم کے بے شمار فضائل ہیں، ان میں سے چند فضائل ملاحظہ ہوں:
1) قرآن شریف میں ہے: وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ • (التوبة: 100)
ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
2) لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا• (الفتح: 48)
ترجمہ: یقینا اللہ ان مومنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ بھی اللہ کو معلوم تھا۔ اس لیے اس نے ان پر سکینت اتار دی، اور ان کو انعام میں ایک قریبی فتح عطا فرما دی۔
3) سورۃ الحشر میں ہے: "لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ • وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ • وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالإِيمَانِ وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلاًّ لِلَّذِينَ آَمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ•" (الحشر: 8، 9 و 10)
ترجمہ: "(نیز یہ مال فیئ) ان حاجت مند مہاجرین کا حق ہے جنہیں اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے بےدخل کیا گیا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو راست باز ہیں۔
(اور یہ مال فیئ) ان لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ (یعنی مدینہ میں) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں۔ جو کوئی ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
اور (یہ مال فیئ) ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان (مہاجرین اور انصار) کے بعد آئے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہماری بھی مغفرت فرمایئے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ بہت شفیق، بہت مہربان ہیں۔"
4) سورۃ آل عمران میں ہے: فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ• (آل عمران: 195)
ترجمہ: "لہذا جن لوگوں نے ہجرت کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں، اور جنہوں نے (دین کی خاطر) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوں گا، اور انہیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے۔"
ذیل میں صحابہ کرام کے فضائل اور ان کی شان میں بے ادبی کرنے والے پر نکیر سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:
1) "لا تسبوا أصحابي فوالذي نفسي بيده لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نصيفه". ( البخاري: 3673, مسلم: 2540)
ترجمہ: "تم میرے صحابہ کو گالی نہ دو، اللہ کی قسم! تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک بلکہ آدھے "مُدً" کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔"
2) "خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم. قال عمران: فلا أدري أذكر بعد قرنه قرنين أو ثلاثة ثم إن بعدهم قوم يشهدون ولا يستشهدون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يوفون ويظهر فيهم السمن." ( البخاري: حديث نمبر: 3650)
ترجمہ: "میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد متصل ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد متصل ہوں گے، پھر ان کے بعد جو لوگ آئیں گے بلاطلب گواہی دیں گے، ان کے پاس امانتیں نہیں رکھوائی جاسکیں گی، مَنت مانیں گے لیکن اسے پورا نہیں کریں گے، اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا۔"
3) "الله الله في أصحابي، لا تتخذوهم غرضا بعدي، فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذى الله، ومن آذى الله فيوشك أن يأخذه." (الترمذي: حديث نمبر: 3862).
ترجمہ: "میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں (تہمتوں اور طنز و تشنیع کا) نشانہ نہ بنالینا، جو ان سے محبت کرتا ہے تو دراصل مجھ سے محبت ہونے کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے، اور جو ان سے نفرت کرتا ہے وہ دراصل مجھ سے نفرت کی وجہ سے ان سے نفرت کرتا ہے، جس نے ان کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی، اور جس نے اللہ کو تکلیف دی، قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے۔"
4) حدثنا أبو بكر بن نافع، قال: حدثنا النضر بن حماد، قال: حدثنا سيف بن عمر، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رأيتم الذين يسبون» أصحابي فقولوا: لعنة الله على شركم."(سنن ترمذی، حديث نمبر: 3866)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں، جو تم ان سے کہہ دینا کہ تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو۔"
(اس موضوع پر حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ کی کتاب "مقامِ صحابہ" کا مطالعہ بہت مفید ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (آل عمران، الآية: 195)
فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ o
سنن الترمذي: (6/ 172، رقم الحديث: 3866، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا أبو بكر بن نافع، قال: حدثنا النضر بن حماد، قال: حدثنا سيف بن عمر ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رأيتم الذين يسبون» أصحابي فقولوا: لعنة الله على شركم. (هذا حديث منكر، لا نعرفه من حديث عبيد الله بن عمر إلا من هذا الوجه)
نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر: (ٍص: 111، ط: مطبعة الصباح، دمشق)
«ولما كان هذا المُختَصرُ شاملًا لجميع أنواع علوم الحديث اسْتطردْتُ منه إلى تعريفِ الصحابيّ ما هو فقُلْتُ: وهو مَنْ لَقِيَ النبيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مُؤمِنًا به وماتَ على الإسلامِ ولو تَخَلَّلَتْ رِدَّةٌ في الأصَحِّ»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی