سوال:
جناب مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک جگہ کام کرتے ہیں اور یہاں جو چیز بھی بکتی ہے، اس پر ہمیں ڈسکاؤنٹ دینے کا اختیار ہوتا ہے، ہم ایسا کرتے ہیں کہ ڈسکاؤنٹ نہیں دیتے اور ڈسکاؤنٹ کے پیسے خود لے لیتے ہیں، اس طرح مالک کا بھی نقصان نہیں ہوتا اور کسٹمر کو وہ چیز ریٹیل قیمت پر مل جاتی ہے اور ہمیں دس بیس روپے کا فائدہ ہوجاتا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ ہمارا اس طرح کرنے سے یہ پیسے ہمارے لیے حرام ہوں گے یا حلال ہوں گے؟ براہ کرم آگاہ کیجیے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر مالک کی طرف سے گاہک کو ڈسکاؤنٹ دینے کا اختیار ہے تو یہ ڈسکاؤنٹ گاہک کو ہی دیا جاسکتا ہے، ملازم اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں گاہک کو ڈسکاؤنٹ نہ دے کر وہ رقم اپنے پاس رکھ لینا درست نہیں ہے، چونکہ بِکنے والا مال مالک کا ہے، اس لیے گاہک سے حاصل شدہ پوری رقم مالک تک پہنچانا ضروری ہے، تاہم اگر مالک وہ رقم خود ملازم کو دیدے یا اس رقم کے رکھنے کی اجازت دیدے تو یہ رقم آپ رکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطني: (رقم الحديث: 2885، 424/3)
نا الحسين بن إسماعيل ، نا عبد الله بن شبيب ، نا يحيى بن إبراهيم بن أبي قتيلة ، نا الحارث بن محمد الفهري ، عن يحيى بن سعيد ، عن أنس بن مالك ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی