سوال:
مفتی صاحب! کیا قربانی کے ایک ہی حصہ میں زندہ اور مردہ دونوں کو ثواب پہنچانے کی نیت کرسکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں! ایک نفلی قربانی کرکے اس کا ثواب ایک سے زائد افراد (زندہ اور مردہ) کو بخش سکتے ہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی پوری امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان کیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کا حکم فرمایا: جس کے کھر، گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے، چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! چھری لے آؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر سے تیز کرلو، چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ) نے چھری تیز کرلی، پھر آپ نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑا اور اسے پہلو کے بل لٹا کر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا: اللہ کے نام سے (ذبح کررہا ہوں) اے اللہ! اسے محمد اور آل محمد اورامت محمد کی طرف سے قبول فرمالیجئے۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 1967)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 1967)
عن عائشة، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا: «يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ»، ثُمَّ قَالَ: «اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ» فَفَعَلَتْ، ثُمَّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ: «بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ» ثُمَّ ضَحَّى بِهِ .
بدائع الصنائع: (کتاب الاضحیة، 70/5، ط: دارالکتب العلمیة)
'' وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟
(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.
و ایضاً: (فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، 72/5، ط:دار الكتب العلمية)
"(وجه) الاستحسان أن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته - وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح - فدل أن الميت يجوز أن يتقرب عنه فإذا ذبح عنه صار نصيبه للقربة فلا يمنع جواز ذبح الباقين."
رد المحتار: (243/2، ط: دار الفکر)
وفي البحر: من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال: وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی