سوال:
آپ نےجو یہ بیان فرمایا کہ معاملہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کا اسی مجلس میں رقم پر قبضہ بھی ہو اس کی سمجھ نہیں آئی، اس کی ذرا وضاحت فرما دیجئے۔ عام طور پر پیسے بھیجتے ہوئے یوں ہوتا ہے کہ یہاں پر مقامی کرنسی کسی آدمی کے حوالے کرتے ہیں اور وہ اپنے ایجنٹ کو پاکستان میں فون کے ذریعے اطلاع دے دیتا ہے اور پاکستان میں ہمارے عزیز اس ایجنٹ سے پیسے وصول کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ یہاں جو آدمی ہنڈی کا کاروبار کرتا ہے، ہم اس کو سات سو ریال دے دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تم ایک ہزار ریال بھجوادو، ہم باقی تین سو ریال تمہیں تین دن بعد دے دیں گے۔ اس صورت میں وہ کوئی اضافی پیسے وصول نہیں کرتا۔کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ کیا ایسا کرنا شرط نمبر دو کے خلاف تو نہیں ہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں پہلی صورت درست ہے، دوسری صورت میں باقی تین سو ریال بھی اسی وقت دینے چاہیے، ورنہ ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ ھونا لازم آئیگی، جس کی حدیث میں ممانعت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح معاني الآثار: (51/4، رقم الحدیث: 5554، ط: عالم الکتب)
حدثنا أبو بكرة، وابن مرزوق، قالا: ثنا أبو عاصم، قال أبو بكرة في حديثه: أخبرنا موسى بن عبيدة، وقال ابن مرزوق في حديثه عن موسى بن عبيدة الزيدي، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ يعني: الدين بالدين.
مصنف ابن ابی شیبة: (رقم الحدیث: 20689، 327/4، ط: مکتبة الرشد)
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا أبو خالد الأحمر، عن حجاج، عن عطاء، قال: «كانوا» يكرهون كل قرض جر منفعة "
المحیط البرھانی: (394/5، ط: دار الکتب العلمیة)
قال محمد رحمه الله في كتاب الصرف: إن أبا حنيفة كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد۔
رد المحتار: (180/5، ط: دار الفكر)
سئل الحانوتي عن بيع الذهب بالفلوس نسيئة. فأجاب: بأنه يجوز إذا قبض أحد البدلين لما في البزازية لو اشترى مائة فلس بدرهم يكفي التقابض من أحد الجانبين قال: ومثله ما لو باع فضة أو ذهبا بفلوس كما في البحر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی