سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص کی کمائی حرام (رشوت) ہے، گھر والوں کو پتا ہونے کے باوجود وہ اس کی لائی ہوئی چیزیں کھاتے ہیں، البتہ اس کی بیوی بہت پریشان ہے کہ کسی طرح شوہر حرام کمائی چھوڑ دے تو ایسی صورت میں بیوی، بچوں، والدین، بہن اور بھائیوں کے لیے اس کی حرام کی لائی ہوئی چیزوں سے کھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی وہ شخص رشوت کا مال کما کر اپنے بیوی بچوں کو کھلاتا ہے، اس کے علاوہ اس کا اور کوئی جائز ذریعہ آمدن نہ ہو تو ایسی صورت میں اہل خانہ کو چاہیے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ اس سے رشوت کی کمائی چھڑانے کی کوشش کریں، البتہ چونکہ بیوی کا نان و نفقہ شوہر پر واجب ہے، لہذا اگر بیوی کے لئے جائز طریقہ سے اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں بیوی کے لئے اپنے شوہر کے مال کو بقدرِ ضرورت استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی، نیز نابالغ بچوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، مال حرام کھلانے کا گناہ شوہر کو ہوگا، البتہ بالغ بچوں اور بہن بھائیوں کیلئے حرام مال سے سے کھانا شرعاً درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار:(191/6، ط: سعید)
اشترى الزوج طعاماً أو كسوةً من مال خبيث، جاز للمرأة أكله ولبسها، والإثم على الزوج، تاترخانیة
الموسوعة الفقهية الكويتية: (248/23)
"المال الحرام كالمأخوذ غصباً أو سرقةً أو رشوةً أو رباً أو نحو ذلك ليس مملوكاً لمن هو بيده"
كذا فی فتاوی جامعة العلوم الاسلامیة بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144105200276
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی