سوال:
ایک آدمی کے کسی نے دو لاکھ دینے ہیں، لیکن وہ آدمی کافی عرصہ سے واپس نہیں کر رہا ہے، ہر مرتبہ تاریخ پر تاریخ دے دیتا ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی مال نہیں ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس آدمی پر قربانی کرنا واجب ہوگی یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص کا مال اگر کسی کے ذمہ قرض ہو، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال موجود نہ ہو اور اس کو گمان غالب ہو کہ قرض خواہ مطالبہ کرنے پر مجھے میری رقم واپس کردے گا تو اس پر لازم ہے کہ قرض خواہ سے کم از کم اتنی رقم کا مطالبہ کرے جس سے قربانی کا فریضہ ادا ہوسکے، اور اگر قرض خواہ قرض نہ دے اور نہ ہی اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی البزازیة: (کتاب الأضحیة، الفصل الثاني في نصابها، 155/3، ط: دار الفکر)
قال الامام رضی الله عنه: من ملك مائتی درهم أو عرضا یساویه، غیر مسکنه وثیابه الذی یلبسه، والمتاع الذی یحتاج الیه الی ان یذبح الاضحیة، یجب علیه. والغنی والفقر والولادة والموت انما تعتبر في آخر أیام الاضحیة ... له دین حال علی مقر مليء، ولیس عندہ مایشتر یھا به، لایلزمه الاستقراض ولا قیمة الاضحیة اذا وصل الدین الیه، ولکن یلزمه ان یسأل منه ثمن الاضحیة اذا غلب علی ظنه انه یعطیه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی