سوال:
مفتی صاحب! ہم ایک ہی گھر کے افراد اگر اجتماعی قربانی کریں، جیسے کئی بھائی ہوں تو کیا ان کو بھی وزن کرکے گوشت کی تقسیم کرنی ہوگی؟ اگر تول کر تقسیم نہ بھی ہو تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم سب اس پر راضی ہیں، اگر کمی بیشی ہو بھی جائے تو ہماری طرف سے ایک دوسرے کو معاف ہے، لیکن یہاں قاری صاحب کہتے ہیں کہ شرعی رو سے ہر حال میں وزن کرنا ضروری ہے، برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اجتماعی قربانی کے گوشت کی تقسیم میں اصل حکم تو یہی ہے کہ وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر ایک ہی گھر کے افراد اجتماعی قربانی کریں جن کا کھانا پینا مشترک ہو یا مثلاً تمام حصہ داران اس پر راضی ہوں کہ گوشت تقسیم کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر صدقہ کردیا جائے یا کچھ دیگ وغیرہ بنالی جائے تو ایسی صورت میں گوشت کو باقاعدہ وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر حصہ داران گوشت تقسیم کریں اور ان کا کھانا پینا مشترک نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کی تقسیم وزن کرکے کرنا ہی ضروری ہوگی، کیونکہ گوشت اموال ربویہ میں سے ہے، اندازے سے تقسیم کرنے کی صورت میں سودی معاملہ ہوجائے گا، جو شرکاء کی رضامندی سے بھی حلال نہیں ہوتا۔
پھر اگر باقاعدہ وزن کرنا مشکل ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ مختلف حصوں میں پائے، کلیجی، مغز، پھیپھڑے، سری یا کلَّہ وغیرہ گوشت کے ساتھ ڈال دئیے جائیں تو ایسی صورت میں وزن کرکے برابری کرنا ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (6/ 317، ط: دار الفكر)
(ويقسم اللحم وزنا جزافا إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.
قال ابن عابدين: (قوله ويقسم اللحم) *انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت.* وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اه ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لا يتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.
*وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اه* وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية.
فتاوی جامعة العلوم الإسلامية بنوري تاون: (رقم الفتوى: 144112200597)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
(مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)
http://AlikhlasOnline.com