عنوان: آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کی مدد سے ویڈیوز بنانا (18061-No)

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ آج کل AI کا دور ہے، ہر کوئی اس پر کام کررہا ہے، میں بھی اس فیلڈ میں نیا آیا ہوں، کیا AI کے ذریعے کسی زندہ انسان یا جانور کی تصویر بناسکتے ہیں یا نہیں؟ AI کے ذریعے جو تصویر بنتی ہے، وہ کارٹون نما بنتی ہے اور اس کے ذریعے آواز بھی بنائی جاتی ہے، کسی دوکان کی پروموشن کے لیے ہم یہ کام کرتے ہیں، کیا ہم اس کام سے پیسے کماسکتے ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ ڈیجیٹل تصویر کے متعلق حضرات علماء کرام کے دو موقف ہیں:
1) ایک موقف یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصویر بھی حرام تصویر ہی کے حکم میں ہے، لہٰذا اس قول کے مطابق ڈیجیٹل تصاویر بنانا اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی دونوں حرام ہیں۔
2) علماء کی دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصویر کا جب تک کسی پائیدار چیز پر عکس یا پرنٹ وغیرہ نہ لیا جائے، تب تک یہ حرام تصویر کے حکم میں داخل نہیں ہے۔ اس اعتبار سے اس کام کے عوض حاصل ہونے والی کمائی بھی حرام نہیں کہلائے گی، بشرطیکہ اس میں خواتین یا حرام مناظر کی تصاویر اور ویڈیوز نہ ہوں۔
پوچھی گئی صورت میں دوسرے موقف والے علماء کرام کے نزدیک درج ذیل شرائط کے ساتھ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) تصاویر والی ویڈیوز بنانا جائز ہے:
‏1) ان ویڈیوز میں اسلامی تعلیمات اور مقدّسات شرعیہ کے خلاف کوئی چیز نہ ہو۔
‏2) میوزک اور موسیقی نہ ہو۔
‏3) عورتوں کی تصاویر نہ ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (باب عذاب المصورين، رقم الحدیث: 5950، ط: دار طوق النجاة)
عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون"

رد المحتار: (كتاب الصلاة، 647/1، ط: دار الفکر)
"قال في البحر: وفي الخلاصة: وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى. وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاةً لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اه".

فقه البیوع: (325/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)‏
ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لا يخلو من محظور شرعي، ‏و عامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج ‏الممنوعة، و إن كان هناك من لا يقصد به ذلك‎.‎‏ فبما أن استعماله في مباح ‏ممكن، فلا نحكم بالكراهة التحريمية في بيعه مطلقا، إلا إذا تعين بيعه لمحظور، ‏ولكن نظرا إلى معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية‎.‎‏ وعلى هذا، فينبغي ‏أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة في الحالة الراهنة، إلا إذا هيأ الله سبحانه ‏جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح، والله سبحانه و تعالى أعلم

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 134 Jun 25, 2024
artificial intelligence ki madad se videos banana

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.