سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت خیریت سے ہوں گے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ طلاق رجعی اور طلاق بائن میں کیا فرق ہے؟ وضاحت کے ساتھ رہنمائی فرما دیجئے گا۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ طلاق کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں:
۱) صریح: وہ الفاظ جو صرف طلاق کے لیے بولے جاتے ہوں، غیر طلاق میں ان کا استعمال نہ ہو، جیسے: لفظ طلاق
۲) کنائی: وہ الفاظ جو طلاق کے لیے بھی بولے جاتے ہوں اور غیر طلاق کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہو، جیسے: نکل جا، دور ہوجا، میں نے تجھے چھوڑ دیا وغیرہ۔
اگر طلاق صریح الفاظ کے ذریعے دی جائے تو وہ طلاق طلاقِ رجعی کہلاتی ہے اور اگر کنائی الفاظ کے ذریعے طلاق دی جائے تو وہ طلاق طلاقِ بائن کہلائے گی۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے:
طلاقِ رجعی اور طلاقِ بائن میں پہلا فرق یہ ہے کہ طلاقِ رجعی میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ یہ بغیر نیت اور خلافِ نیت سے بھی واقع ہوجاتی ہے۔ مثلاً: اگر شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ "میں نے تجھے طلاق دی" اور پھر کہے کہ میری کوئی نیت ہی نہیں تھی یا طلاق کی نیت نہیں تھی، دونوں صورتوں میں عورت پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، جبکہ طلاقِ بائن میں وقوعِ طلاق کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے اور بعض دفعہ دلالتِ حال مثلاً لڑائی اور غصہ کی حالت یا طلاق کا پہلے سے تذکرہ ہونا، عورت کا مطالبہ طلاق کرنا بھی نیت کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ طلاقِ رجعی (صریح) میں عدد کو ذکر کیے بغیر شوہر ایک سے زائد طلاق کی نیت کرے، تب بھی ایک ہی طلاق واقع ہوگی، جبکہ طلاقِ بائن میں عدد ذکر کیے بغیر اگر شوہر ایک طلاق کی نیت کرے تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی اور اگر تین طلاق کی نیت کرے تو تین طلاقیں ایک ساتھ واقع ہوجائیں گی، البتہ اگر دو طلاق کی نیت ہو تو ایک ہی واقع ہوگی۔
تیسرا فرق یہ ہے کہ طلاق رجعی میں شوہر کو عورت کی مرضی کے بغیر عدت مکمل ہونے سے پہلے تک رجوع کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ طلاق بائن میں شوہر کو رجوع کا کوئی اختیار نہیں رہتا اور دوبارہ نکاح کیے بغیر دونوں کا ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہوتا ہے۔
چوتھا فرق یہ ہے کہ طلاق رجعی میں دورانِ عدت مطلقہ کو شوہر کے لیے سجنے سنورنے کی اجازت ہے، جبکہ طلاقِ بائن میں دورانِ عدت عورت کے لیے بناؤ سنگھار کرنا ممنوع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (225/1، ط: دار احياء التراث العربي)
باب إيقاع الطلاق
" الطلاق على ضربين صريح وكناية فالصريح قوله أنت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي " لأن هذه الألفاظ تستعمل في الطلاق ولا تستعمل في غيره فكان صريحا وأنه يعقب الرجعة بالنص " ولا يفتقر إلى النية " لأنه صريح فيه لغلبة الاستعمال " وكذا إذا نوى الإبانة " لأنه قصد تنجيز ما علقه الشرع بانقضاء العدة فيرد عليه.
.....قال: " وبقية الكنايات إذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بائنة وإن نوى ثلاثا كانت بثلاث وإن نوى ثنتين كانت واحدة بائنة وهذا مثل قوله أنت بائن وبتة وبتلة وحرام وحبلك على غلوبك الحقي بأهلك وخلية وبرية ووهبتك لأهلك وسرحتك وفارقتك وأمرك بيدك واختاري وأنت حرة وتقنعي وتخمري واستتري واغربي واخرجي واذهبي وقومي وابتغي الأزواج " لأنها تحتمل الطلاق وغيره فلا بد من النية.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي: (باب الطلاق، 197/2، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
الطلاق ضربان صريح وكناية فالصريح ما ظهر المراد منه ظهورا بينا حتى صار مكشوف المراد بحيث يسبق إلى فهم السامع بمجرد السماع حقيقة كان أو مجازا ومنه الصرح للقصر لظهوره قال - رحمه الله - (الصريح هو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك) لأن هذه الألفاظ يراد بها الطلاق وتستعمل فيه لا في غيره فكانت صريحا قال - رحمه الله - (وتقع واحدة رجعية) لقوله تعالى {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229] فأثبت الرجعة بعد الطلاق الصريح ... قال - رحمه الله - (وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا) يعني، ولو نوى أكثر من واحدة أو نوى واحدة بائنة لا يقع به إلا واحدة رجعية في هذه الأحوال كلها؛ لأنه ظاهر المراد فتعلق الحكم بعين الكلام وقام مقام معناه فاستغنى عن النية وبنيته الإبانة قصد تنجيز ما علقه الشارع بانقضاء العدة فيلغو قصده
المبسوط للسرخسي: (باب الرجعة، 25/6، ط: دار المعرفة)
(قال) والمعتدة من طلاق رجعي تتشوف وتتزين له لأن الزوجية باقية بينهما، وهو مندوب على أن يراجعها وتشوفها له يرغبه في ذلك
فتاوی محمودیه: (334/12، ط: اداره الفاروق)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی