عنوان: کمپنی کی طرف سے کمپنی کے ملازم کو ملازمت کے اوقات کے بعد کوئی اور کام نہ کرنے کا پابند بنانا (18071-No)

سوال: السلام علیکم، ہمارا ایک دوست کمپنی میں ملازمت کرتا ہے، ان کمپنی والوں نے کنٹریکٹ میں لکھا ہے کہ ہماری کمپنی میں جاب کرتے ہوئے کوئی دوسری جاب نہیں کر سکتے (جس سے کچھ اور آمدن ہو)، پچھلے سال اس کمپنی نے بغیر اطلاع دیے پورے مہینے کی تنخواہ نہیں دی، اب اس صورت میں اگر نوکری کے وقت کے علاوہ (شام کے اوقات میں) زائد کام کیا جائے، اور جس سے کمپنی کے کام میں کوئی حرج بھی نہ ہو تو کیا اس کی اجازت ہے؟ کیا کمپنی کا اس طرح کا کنٹریکٹ بنانا صحیح ہے؟

جواب: واضح رہے کہ وقت کی بنیاد پر کام کرنے والا ملازم (اجیر خاص) صرف طے شدہ وقت میں کام کرنے کا پابند ہوتا ہے، معاہدہ میں طے شدہ اوقات کے علاوہ باقی اوقات میں وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی جائز کام کرسکتا ہے، لہذا کمپنی کا ملازم کو خارجی اوقات میں کوئی بھی کام نہ کرنے کا پابند بنانا اصولی طور پر درست نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ اگر خارجی اوقات میں کام کرنے کی وجہ سے کمپنی کے کام میں حرج واقع ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں اگر ملازم کو مناسب تنخواہ دینے کے ساتھ اضافی اوقات میں کوئی اور کام نہ کرنے کی شرط لگا لی جائے تو عرف اور تعامل کی وجہ سے اس کی گنجائش ہے، ایسی صورت میں ملازم کو حتی الامکان معاہدہ پر عمل کرنا چاہیے۔
تاہم چونکہ اصلاً یہ شرط فاسد ہے، لہذا اگر ملازمت والی تنخواہ اتنی کم ہو کہ گزارہ نہ ہوسکے تو مجبوری کی صورت میں اپنے فارغ اوقات میں کوئی اور جائز ذریعہ معاش اختیار کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس دوسرے کام کی وجہ سے ملازمت والے کام میں حرج واقع نہ ہو، نیز وہ دوسرا کام ملازمت والی جگہ/کمپنی کے کاروبار کی نوعیت کا نہ ہو، تاکہ مفادات کا ٹکراؤ پیدا نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مجلة الاحکام العدلیة: (الكتاب الثانى فى الاجارة، الباب الاول فى الضوابط العمومية، رقم المادة: 425)
الاجیر الخاص یستحق الاجرة اذا کان فی مدة الاجارة حاضرا للعمل ولا یشترط عمله بالفعل، ولکن لیس له یمتنع من العمل واذا امتنع فلا یستحق الاجرة

درر الحکام شرح مجلة الاحکام: (المادة: 188، 138/2، ط: دار الجیل٬ بیروت)
الشرط المتعارف ولو لم يكن من مقتضيات العقد جوز البيع معه استحسانا وصار معتبرا هندية.....وجواز البيع معه خلاف القياس؛ لأن فيه نفعا لأحد المتعاقدين ووجه الاستحسان العرف والتعامل؛ لأن الشرط متى كان متعارفا فلا يكون باعثا على النزاع ويحصل الملك المقصود بغير خصام

أصول الافتاء وآدابه للشیخ محمد تقی العثمانی: (ص: 250-259، ط: معارف القرآن)
وأما الاحکام التی تتغیر بالتعامل فانها تندرج غالبا فی أنواع آتیة.......الثانی: قد یکون حکم النص معلولا بعلة وتنتفی تلك العلة بالعرف أو بالتعامل فی بعض الجزئیات، لا فی جمیعہا وحینئذ یتغیر الحکم فی خصوص تلك الجزئیات مثاله؛ دخول الحمام بالأجرہ فانه مجهول ففیه غرر ممنوع بالحدیث لکن جوزوہ لتعامل الناس لان علة النهی هى الجہالة المفضیة الی المنازعة ولم یبق هناك نزاع بالتعامل، وکذالك نهی النبی صلی اللہ علیه وسلم عن الشرط فی البیع....واستثنی منه الحنفیة الشروط التی هی معروفة فیما بین التجار

کذا فی تبویب فتاوی جامعه دار العلوم کراتشي و تبویب فتاوی دار الافتاء دار التقوی لاهور

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 162 Jun 26, 2024
company ki taraf se company k mulazim nokar k auqat k bad koi or kaam na karne ka paband banana

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.