سوال:
میرا نکاح میرے خالہ زاد سے ہوا ہے، میرے ابو نے میری امی کو تین سال پہلے طلاق دے دی، میرے شوہر کہتے ہیں کہ میں آپ کے ابو سے میل جول نہیں رکھنا چاہتا، کیونکہ انہوں نے میری خالہ کو طلاق دی ہے۔ کیا اسلام میں جائز ہے کہ ایک داماد اس وجہ سے میل جول اپنے سسر سے ختم کر دے ؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ قرآن كريم اور احادیث مباركہ میں صلہ رحمى (رشتہ ناتا جوڑنے) کی بہت فضیلت اور تاکید وارد ہوئی ہے، اور قطع رحمى (رشتہ ناتا توڑنے) سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ: اور تم ڈرو اللہ تعالیٰ سے جن کے نام پر تم دوسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور ڈرو تم قرابت کے حقوق ضائع کرنے سے۔ (سورة النساء:1)
پوچھی گئی صورت میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ طلاق کا واقعہ کیوں پیش آیا؟ اگر اس میں قصور آپ کے والد کا تھا، اور انہوں نے طلاق کا اختیار غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی تو اس وجہ سے آپ کے شوہر کا آپ کے والد سے ناراضگی کا اظہار کرنا درست ہے، لیکن اس صورت میں بھی بالکل قطع تعلقی اختیار نہ کی جائے، بلکہ سلام و ضروری کلام کی حد تک تعلق استوار رکھے۔
لیکن اگر طلاق دینے میں آپ کے والد حق بجانب تھے تو اس صورت میں اُن سے ناراض ہونا اور ان کے ساتھ قطع تعلق کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں ہے، ایسا کرنے سے آپ کے شوہر سخت گناہگار ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 1)
واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا O
رد المحتار: (228/3، ط: سعید)
و أما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه و هو معنى قولهم الأصل فيه الحظر و الإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا و سفاهة رأي و مجرد كفران النعمة و إخلاص الإيذاء بها و بأهلها و أولادها ، و لهذا قالوا إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق و عروض البغضاء الموجبة لعدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر و الريبة كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح ، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر و لهذا قال تعالى: "فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا" (النساء: 34) أي لا تطلبوا الفراق ، و عليه حديث أبغض الحلال إلى الله الطلاق۔
الدر المختار مع رد المحتار: (411/6، ط: سعید)
"وصلة الرحم واجبة ولو) كانت (بسلام وتحية وهدية) ومعاونة ومجالسة ومكالمة وتلطف واحسان ويزورهم غبا ليزيد حبا بل يزور اقرباءه كل جمعة أو شهر ولا يرد حاجتهم لأنه من القطيعة في الحديث: إن الله يصل من وصل رحمه ويقطع من قطعها.
(قوله: وصلة الرحم واجبة): نقل القرطبي في تفسيره اتفاق الأمة على وجوب صلتها وحرمة قطعها للأدلة القطعية من الكتاب والسنة على ذلك قال في تبيين المحارم: واختلفوا في الرحم التي يجب صلتها قال قوم: هي قرابة كل ذي رحم محرم وقال آخرون: كل قريب محرما كان أو غيره اه.. والثاني ظاهر إطلاق المتن، قال النووي في شرح مسلم: وهو الصواب واستدل عليه بالأحاديث. نعم تتفاوت درجاتها ففي الوالدين أشد من المحارم وفيهم أشد من بقية المحارم وفي الاحاديث إشارة الى ذلك كما بينه في تبيين المحارم".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی