سوال:
میں اپنے دادا کے گھر میں رہتا ہوں، میرے والد کا میرے دادا سے پہلے انتقال ہو گیا تھا، میرے دادا کی ایک بیٹی ہے، اس کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے، وہ مجھ سے اس گھر میں میراث مانگ رہی ہیں، میں اپنے اور اپنے والد کی بہن کے درمیان حصہ جاننا چاہتا ہوں، میری بہنیں بھی ہیں اور ماں زندہ ہے، اس وقت میرے دادا فوت ہو چکے ہیں اور دادا کے بعد دادی بھی فوت ہوگئی ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ والدین کی زندگی میں جس بیٹے کا انتقال ہو جائے، اس کا والدین کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے، لہذا آپ کے والد کا اپنے والدین کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ چونکہ آپ کے دادا اور دادی کے ورثاء میں صرف ایک بیٹی، آٹھ پوتیاں اور ایک پوتا (آپ) ہے، اس کے علاوہ کوئی اور شرعی وارث نہیں ہے، اس وجہ سے پوچھی گئی صورت میں آپ کے دادا اور دادی کی میراث ایک بیٹی، آٹھ پوتیوں اور ایک پوتے کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی، جبکہ آپ کی والدہ کا اپنے سسر اور ساس کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو ایک سو ساٹھ (160) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیٹی کو نوے (90)، پوتے کو چودہ (14) اور آٹھ پوتیوں میں سے ہر ایک کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیٹی کو %56.25 فیصد حصہ، پوتے کو %8.75 فیصد حصہ اور آٹھ پوتیوں میں سے ہر ایک پوتی کو %4.375 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ... الخ
صحیح البخاري: (باب میراث ابن الابن، 266/4، ط: دار الکتب العلمیة)
وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»".
رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.
السراجی: (ص: 36، ط: مکتبة البشرى)
يرجحون بقرب الدرجة، أعني أولاهم بالميراث جزء الميت أي البنون ثم بنوهم وإن سفلوا، ثم أصله أي الأب ثم الجد أي أب الأب وإن علا، ثم جزء أبيه أي الإخوة۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی