سوال:
حضرت حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر:2790)
حضرت! اس حدیث کے راوی اور سند کے حساب سے رہنمائی فرما دیجیے، کیونکہ بعض حضرات اس حدیث کو ضعیف اور اس عمل کو بدعت بتا رہے ہیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت سنن ابو داؤد میں مروی ہے، بعض علماء نے اگرچہ اس روایت میں موجود راوی (ابو الحسناء) کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا ہے، لیکن خود امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد اس پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی ہے جو ان کے نزدیک اس روایت کے "صالح یعنی قابل حجت" ہونے کی علامت ہے۔ اسی طرح یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور علامہ ذھبی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کے حکم کی تایید کی ہے، لہذا یہ روایت بیان کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک بعض علماء نے اس روایت میں موجود راوی ابو الحسناء کی مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام حاکم نے اس راوی کا نام حسن بن حکم نخعی نقل کیا ہے، لہذا امام حاکم کے نزدیک یہ راوی مجہول نہیں ہے۔ نیز امام بخاری نے "تاریخ کبیر" میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے "تھذیب التھذیب" میں اس راوی (ابو الحسناء) کا ذکر کر کے اس پر سکوت اختیار فرمایا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔ اسی طرح امام احمد ابن حنبل اور یحی بن معین رحمہا اللہ نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے۔
مزید یہ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ یا اپنے مرحومین کی ایصالِ ثواب کے لیے ان کی طرف سے قربانی کرنے کا مسئلہ صرف سوال میں ذکر کردہ سیدنا علیؓ کی اس روایت پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اس پر دیگر دلائل بھی موجود ہیں، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امّت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر: 2548)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المستدرك على الصحيحين للحاکم: (رقم الحدیث: 7556، ط: دار الكتب العلمية)
فمنها ما حدثنا الشيخ أبو بكر بن إسحاق، أنبأ بشر بن موسى الأسدي، وعلي بن عبد العزيز البغوي، قالا: ثنا محمد بن سعيد بن الأصبهاني، ثنا شريك، عن أبي الحسناء، عن الحكم، عن حنش، قال: ضحى علي، رضي الله عنه بكبشين كبش عن النبي صلى الله عليه وسلم وكبش عن نفسه وقال: «أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أضحي عنه» فأنا أضحي أبدا " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو: الحسن بن الحكم النخعي ". [التعليق - من تلخيص الذهبي]٧٥٥٦ - صحيح
تعلیق أحمد محمد شاكر علی مسند الإمام أحمد بن حنبل: (321/13، ط: دار الحديث)
(٨٤٣) إسناده صحيح. وسيأتي مطولا ١٢٧٨ وشريك: هو ابن عبد الله النخعي. الحكم: هو ابن عتيبة. حنش: هو ابن المعتمر. والحديث رواه أبو داود ٣: ٥٠ والترمذي ٢: ٣٥٣ - ٣٥٤ وقال: "هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك". وفي طبعة بولاق ١: ٢٨٢ - ٢٨٣ زيادة نصها:" قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك. قلت له: أبو الحسناء ما اسمه؟ فلم يعرفه. قال مسلم: اسمه الحسن" وهذه الزيادة ثابتة في مخطوطتنا الصحيحة من الترمذي. وأبو الحسناء هذا ترجم له في التهذيب فلم يذكر فيه جرحا ولاتعديلا وقال: "اسمه الحسن ويقال الحسين" وترجمه الذهبي في الميزان فقال: = = "لا يعرف". ولكن الحديث رواه أيضا الحاكم في المستدرك ٤: ٢٢٩ - ٢٣٠ وقال: "هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعى" ووافقه الذهبي. والراجح عندي ما قاله الحاكم. والحسن بن الحكم النخعي الكوفي يكنى أبا الحسن، ورجح الحافظ في التهذيب ٢: ٢٧١ أنه يكنى أبا الحكم، فقد اختلف في كنيته، فالظاهر أن بعضه كناه أيضا أبا الحسناء، وهو من شيوخ شريك أيضا، وقد وثقه أحمد وابن معين، وترجمه البخاري في الكبير ١/ ٢ / ٢٨٩ فلم يذكر فيه جرحا.
سنن ابن ماجه: (رقم الحدیث: 2548)
كان إذا أراد أن يضحي، اشترى كبشين عظيمين، سمينين، أقرنين، أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله، بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد، وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم.
الھدایة: (178/1، ط: دار احياء التراث العربي)
الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته.
کذا فی اعلاء السنن: (268/17، ط: ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیة)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی