عنوان: قرآن میں نظریں نیچے رکھنے کے حکم کی تشریح (18109-No)

سوال: حضرت! قرآن عظیم میں جو نظر نیچی کرنے کا حکم ہے، اس سے کیا مراد ہے، نیز اس پر عمل کیسے کریں؟ عموماً آفس میں یا راہ چلتے جتنی نظر ہم نیچی کرتے ہیں، اس سے منظر تو اور بھی خطرناک ہوجاتا ہے، بالفرض اگر بالکل بھی نیچی کرلیں تب بھی نظر کنایہ اپنا کام کر جاتی ہے۔ اسی طرح خاص کر بائیک یا گاڑی چلاتے ہوئے سامنے کا منظر جلد تبدیل نہیں ہوتا اور بعض اوقات بالکل نظر ہٹانا بھی ممکن نہیں ہوتا، جب تک منظر تبدیل ہوتا ہے نفس کچھ نہ کچھ چرا ہی لیتا ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے اور کسی ناشائستہ گفتگو کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔

جواب: نظروں كو جھكانے كا حکم سورة النور کی آیت نمبر 30 اور 31 میں بیان فرمایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ • وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ... إلخ} [النور: 30، 31]
ترجمہ: "مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔"
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ معارف القرآن میں ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "یغضوا، غض سے مشتق ہے جس کے معنی کم کرنے اور پست کرنے کے ہیں۔۔ نگاہ پست اور نیچی رکھنے سے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیرلینا ہے جن کی طرف دیکھنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔۔۔ اس میں غیر محرم عورت کی طرف بُری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کراہۃً داخل ہے اور کسی عورت یا مرد کے ستر شرعی پر نظر ڈالنا بھی اس میں داخل ہے، (مواضع ضرورت جیسے علاج معالجہ وغیرہ اس سے مستثنی ہیں) کسی کا راز معلوم کرنے کے لئے اس کے گھر میں جھانکنا اور تمام وہ کام جن میں نگاہ کے استعمال کرنے کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے اس میں داخل ہیں۔" (معارف القرآن، سورة النور: آیت نمبر: 30)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن شریف میں نظریں جھکانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اوپر ہی نہ دیکھے جس کی وجہ سے چلنے میں گرنے کا اندیشہ ہو، باقی اگر غلطی سے نامحرم پر نظر پڑ جائے تو فوراً نظریں ہٹالے، نظروں کو وہاں جمائے نہ رکھے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے: "جریر بن عبداللہ بجلیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (کسی ممنوع جگہ پر) اچانک نظر پڑجانے سے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ایسے موقع پر میں اپنی نظریں پھیر لیا کروں۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2159)
ایک اور حدیث مبارکہ ہے: "ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے فرمایا: اے علی! پہلی مرتبہ اچانک نظر پڑجانے کے بعد دوسری مرتبہ مت دیکھو، اس لیے کہ پہلی مرتبہ (بلا ارادہ اچانک پڑجانے والی) نظر معاف ہے، لیکن دوسری مرتبہ دیکھنا معاف نہیں ہے۔" (سنن ابی داود، حدیث نمبر: 2149)
اسی طرح مسندِ احمد کی ایک روایت ہے: "حضرت ابوامامهؓ سے مروی ہے کہ کوئی مسلمان جس کی نظر پہلی مرتبہ کسی عورت کے محاسن پر پڑے، اور پھر وہ اپنی نظروں کو جھکالے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کو ایسی عبادت کی توفیق دیں گے جس کی وہ حلاوت محسوس کرے گا“۔ (مسندِ احمد،حدیث نمبر: 22278)
اس آخری حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن فضائل کے باب میں ضعیف سند بھی قابلِ قبول ہوتی ہے۔
باقی "نظرِ کنایہ" اور "نفس کے کچھ نہ کچھ چُرا لینے" سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں، تاکہ اس کا شرعی حکم بتایا جاسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکريم: (النور، الآية: 30، 31)
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ o وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ... إلخ

صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 2159، 1999/3، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدثني قتيبة بن سعيد. حدثنا يزيد بن زريع. ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا إسماعيل بن علية. كلاهما عن يونس. ح وحدثني زهير بن حرب. حدثنا هشيم. أخبرنا يونس عن عمرو بن سعيد، عن أبي زرعة، عن جرير بن عبد الله. قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نظر الفجاءة. فأمرني أن أصرف بصري.

سنن أبي داود: (رقم الحديث: 2149، 481/3، ط: دار الرسالة العالمية)
حدَّثنا إسماعيلُ بنُ موسى الفَزاريُّ، أخبرنا شريك، عن أبي ربيعة الإياديِّ، عن ابن بُريدة عن أبيه، قال: قال رسولُ الله - صلَّى الله عليه وسلم - لعليٍّ: "يا عليُّ، لا تُتْبِعِ النظرةَ النظرةَ، فإن لك الأولى، وليست لك الآخرة"»

معالم السنن للخطابي: (222/3، ط: المطبعة العلمية)
قال الشيخ ‌النظرة الأولى إنما تكون له لا عليه إذا كانت فجأة من غير قصد أو تعمد وليس له أن يكرر النظر ثانية ولا له أن يتعمده بدءا كان أو عودا.

مسند أحمد: (رقم الحديث: 22278، 610/36، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا إبراهيم بن إسحاق، حدثنا ابن مبارك، وعتاب قال حدثنا عبد الله هو ابن المبارك، أخبرنا يحيى بن أيوب، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما من ‌مسلم ينظر إلى ‌محاسن امرأة أول مرة، ثم يغض ‌بصره إلا أحدث الله له عبادة يجد حلاوتها ".

حاشية الشيخ شعيب الأرنؤوط تحته:
إسناده ضعيف جدا، علي بن يزيد -وهو ابن أبي هلال الألهاني- واهي الحديث، وعبيد الله بن زحر -وهو الضمري الإفريقي- ضعيف يعتبر به. عتاب: هو ابن زياد المروزي، ويحيى بن أيوب: هو الغافقي المصري، والقاسم: هو ابن عبد الرحمن الدمشقي...إلخ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 257 Jul 10, 2024
quran mein nazrein aankhen niche rakhne ka hukum ki tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.