سوال:
سوال یہ ہے کہ ہماری کمپنی میں ایک ڈپارٹ ہے، جس میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور پانی پینے کی جگہ ایک ہے اور برتن بھی ایک ہے تو ایک ہی برتن کو مسلم وغیر مسلم استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اور کھانا وغیرہ مل کر کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: واضح رہے کہ اسلام چھوت چھات کا قائل نہیں ہے اور ہر انسان چاہے کافر ہو یا مسلمان اس کا جھوٹا فی نفسہ پاک ہے، جب تک کوئی ناجائز اور حرام چیز اس کے منہ کو نہ لگی ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عیسائی، ہندو اور کافر کے برتن میں پاک چیز کھائی گئی ہو تو اس کو بغیر دھوئے بھی استعمال کرسکتے ہیں اور اگر ناپاک چیز کھائی گئی ہو تو اس برتن کو اچھی طرح پاک کرنے کے بعد کھانے پینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ کفار کے ساتھ کھانے پینے کو جو منع کیا جاتا ہے، اس کی وجہ ان کے جھوٹے کا ناپاک ہونا نہیں ہے، بلکہ عموماً جس آدمی کے ساتھ کھایا پیا جاتا ہے، اس کے ساتھ دوستی کا تعلق بیٹھ جاتا ہے اور غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کا تعلق اختیار کرنا منع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 144)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًاo
المحیط البرھانی: (124/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
أما الطاهر الذي لا كراهة فيه سؤر الآدمي وسؤر ما يؤكل لحمه سوى الدجاجة المخلاة، أما سؤر الآدمي فلما روي أن رسول الله عليه السلام «أتي بعسل من لبن فشرب بعض وناول الباقي أعرابيا كان على يمينه فشربه ثم ناول أبا بكر فشربه» ، ولأن عين الآدمي طاهرة لا كراهة فيه إلا أنه لا يؤكل لكرامته ولعابه متولد من عينه، فإذا كان عينه طاهر من غير كراهة كان سؤره طاهرا من غير كراهة أيضا، ويستوي فيه المسلم والكافر عندنا. وقال الشافعي: سؤر الكافر نجس؛ لأن عين الكافر نجس، قال الله تعالى: {إنما المشركون نجس} (التوبة: ٢٨) فإذا كان عينه نجسا كان لعابه نجسا فيكون سؤره نجسا.
وإنا نقول: عين الكافر ليس بنجس، ألا ترى أن وفد بني ثقيف أنزلوا في مسجد رسول الله عليه السلام وكانوا مشركين، ولو كان عين الكافر نجسا لما أنزلوا في المسجد.
والآية محمولة على نجاسة اعتقادهم، لا على نجاسة أعضائهم، ونجاسة الاعتقاد لا تؤثر في نجاسة الأعضاء
الھندیۃ: (347/5، ط: دار الفکر)
قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما۔۔۔۔۔۔ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی