سوال:
جناب مفتی صاحب! میری بیوی انعم رضوان کے والد سنار تھے، انہوں نے تیس سال پہلے حیدری مارکیٹ میں پگڑی پر ایک دوکان لی تھی، اس پگڑی کی دکان کی قیمت میری بیگم کے والد صاحب نے ادا کی تھی اور اس کا مہینے کا کرایہ دکان سے ادا کیا جاتا تھا، پھر دکان لینے کے تقریباً بارہ سال بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا، اس درمیان 12 سال دکان کا کرایہ ان کے والد صاحب (شکیل احمد) مرحوم ادا کرتے رہے، والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی سرپرستی ان کے نانا اور تایا جان کے پاس آگئی تھی، اور پھر دکان ان کے ماموں لوگوں کو چلانے کے لیے دے دی گئی تھی، کیونکہ شکیل احمد (مرحوم) کے بچے بہت چھوٹے تھے، دکان کا کرایہ دکان سے ہی ادا کیا گیا، پھر ایک دن پگڑی مالک نے تقریباً کچھ سال بعد سب مارکیٹ کے دکان داروں سے کہا کہ وہ دکان اپنے نام کروالیں اور شکیل احمد مرحوم صاحب کی دکان نام کروانے کے لیے ان کے بڑے بھائی (بچوں کے تایا) نے اس وقت تقریباً /000، 350 روپے دے کر دکان صرف تین بیٹوں کے نام کروا دی، جبکہ شکیل احمد مرحوم صاحب کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں بھی ہیں جو ان کے تایا نے غیر شرعی طور پر ان تین بیٹوں کے نام صرف دکان کردی اور کہا کہ یہ بیٹیوں کی شادی کریں گے اور دکان میں بیٹیوں کا حصہ نہیں ہوگا، دکان صرف بیٹوں کی ہوگی۔
اب ان کے بھائیوں نے دوکان فروخت کردی ہے اور تینوں بھائیوں نے اس میں صرف اپنا حصہ رکھا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں شرعی رہنمائی چاہیے، آیا اس پورے تفصیلی معاملے میں ہم بیٹیوں کا حق ختم ہوجاتا ہے یا شریعت میں اس کا کیا حکم بیان کیا گیا ہے؟ براہ مہربانی ہمارے اس مسئلے میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح: اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا اس وقت بہنیں خاندانی یا معاشرتی دباؤ کے بغیر اس بات پر دلی طور پر رضامند تھیں کہ والد صاحب کی دکان میں ہمارا جو حصہ ہے، اس میں سے ہماری شادیاں کرادی جائیں، باقی حصہ سے ہم دستبردار ہوتی ہیں یا راضی نہیں تھیں؟ اس بات کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح: مفتی صاحب! یہ بات نہ ہم بہنوں سے پوچھی گئی اور نہ ہی ہمیں اس سلسلہ میں کچھ بتایا گیا تھا۔
جواب: واضح رہے کہ پوچھی گئی صورت میں تایا کی طرف سے کی گئی یہ تقسیم غیر شرعی اور غیر منصفانہ ہے، تایا کا مرحوم بھائی کی دکان ان کے صرف بیٹوں کے نام کروانے سے بیٹیوں کا حق ختم نہیں ہوگا، بلکہ اس میں بیٹیوں کا بھی شرعی حصہ ہوگا، لہذا بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق و حصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیث شریف میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی ظلماََ لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔ (مشکوة المصابیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".
الدر المختار: (689/5، ط: دار الفکر)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي: (4984/7، ط: دار الفكر)
ليس المرء حرا بالتصرف في ماله بعد وفاته حسبما يشاء كما هو مقرر في النظام الرأسمالي، وإنما هو مقيد بنظام الإرث الذي يعتبر في الإسلام من قواعد النظام الإلهي العام التي لا يجوز للأفراد الاتفاق على خلافها، فالإرث حق جبري.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی