سوال:
حضرت! مندرجہ ذیل حدیث کی تصدیق اور تشریح فرمادیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن میں ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس ساعت کو پا کر اللّٰہ تعالیٰ سے مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور دیتا ہے،لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری ساعت (گھڑی) میں تلاش کرو۔
جواب: جی ہاں! سوال میں مذکور حدیث سنن ترمذی میں موجود ہے، ذیل میں اس روایت کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے۔
ترجمہ: انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’جمعہ کے روز اس گھڑی کو جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو‘‘۔ (ترمذی، حدیث نمبر:489)
تشریح:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کسی مسلمان شخص کو حسن اتفاق سے وہ میسر آجائے (اور) وہ اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے (اس کی مانگی ہوئی) وہ چیز عطا فرما دیتے ہیں"۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 852)
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ وہ دعا قبول کرتے ہیں، لیکن یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ اس میں کئی اقوال ہیں، جن میں سے دو زیادہ مشہور ہیں: (1) سوال میں مذکور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وقت جمعے کے دن عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ (2) صحیح مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جب خطبہ کے لیے بیٹھتا ہے، اس وقت سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک یہ وقت رہتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے اپنے والد کو جمعے کی گھڑی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں میں نے انہیں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے: "یہ امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز مکمل ہونے تک ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 853)
خلاصہ کلام:
بہرحال جمعہ کے دن عصر سے مغرب تک تو دعا و ذکر کا اہتمام ہونا چاہیے، ساتھ ساتھ جمعہ کی نماز کے خطبہ سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک بھی اگر امکانِ دعا ہو تو اس کا اہتمام کرلینا چاہیے، لیکن اس وقت دل ہی دل میں دعا مانگنی چاہیے، زبان سے یا ہاتھ اٹھا کر دعا نہ مانگی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب مَا جَاءَ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، رقم الحدیث: 489، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثنا عبد الله بن الصباح الهاشمي البصري العطار، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، حدثنا محمد بن ابي حميد، حدثنا موسى بن وردان، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " التمسوا الساعة التي ترجى في يوم الجمعة بعد العصر إلى غيبوبة الشمس ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، ومحمد بن ابي حميد يضعف ضعفه بعض اهل العلم من قبل حفظه، ويقال له: حماد بن ابي حميد، ويقال: هو ابو إبراهيم الانصاري وهو منكر الحديث، وراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الساعة التي ترجى فيها بعد العصر إلى ان تغرب الشمس، وبه يقول: احمد , وإسحاق، وقال احمد: اكثر الاحاديث في الساعة التي ترجى فيها إجابة الدعوة انها بعد صلاة العصر وترجى بعد زوال الشمس.
صحيح مسلم: (باب فِي السَّاعَةِ الَّتِي فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، رقم الحدیث: 852، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "إن في الجمعة لساعة لا يوافقها مسلم يسأل الله فيها خيرا إلا أعطاه إياه" قال: "وهي ساعة خفيفة".
صحيح مسلم: (باب فِي السَّاعَةِ الَّتِي فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، رقم الحدیث: 853، ط: دار احیاء التراث العربی)
وحدثني ابو الطاهر ، وعلي بن خشرم ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، عن مخرمة بن بكير . ح وحدثنا هارون بن سعيد الايلي ، واحمد بن عيسى ، قالا: حدثنا ابن وهب ، اخبرنا مخرمة ، عن ابيه ، عن ابي بردة بن ابي موسى الاشعري ، قال: قال لي عبد الله بن عمر: اسمعت اباك يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في شان ساعة الجمعة؟ قال: قلت: نعم، سمعته يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " هي ما بين ان يجلس الإمام إلى ان تقضى الصلاة ".
الدر المختار: (164/2، ط: دار الفکر)
«وسئل - عليه الصلاة والسلام - عن ساعة الإجابة فقال: ما بين جلوس الإمام إلى أن يتم الصلاة» وهو الصحيح. وقيل: وقت العصر وإليه ذهب المشايخ كما في التتارخانية ۔
رد المحتار: (164/2، ط: دار الفکر)
وفي هذه الساعة أقوال. أصحها أو من أصحها أنها فيما بين أن يجلس الإمام على المنبر إلى أن يقضي الصلاة كما هو ثابت في صحيح مسلم عنه - صلى الله عليه وسلم - أيضا حلية. قال في المعراج: فيسن الدعاء بقلبه لا بلسانه لأنه مأمور بالسكوت . اه.
وفي حديث آخر أنها آخر ساعة في يوم الجمعة وصححه الحاكم وغيره وقال على شرط الشيخين، ولعل هذا هو مراد المشايخ. ونقل ط عن الزرقاني أن هذين القولين مصححان من اثنين وأربعين قولا فيها وأنها دائرة بين هذين الوقتين فينبغي الدعاء فيهما. اه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی