سوال:
کیا کسی کو بغیر ثبوت کے یہودی یا قادیانی کہنا صحیح ہے؟ آج کل لوگ بغیر تحقیق کے ایسی پوسٹیں فارورڈ کرتے ہیں جس میں کسی پر یہودی یا قادیانی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ براہ مہربانی اس بارے میں شریعت کے حکم سے رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب: واضح رہے کہ کسی کافر کو دائرہ اسلام میں داخل کرنا یا کسی مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا، دونوں باتیں کہنے میں نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، اسی لیے کسی واقعی مسلمان کو بلاتحقیق کافر کہنے پر سخت وعید آئی ہے، چنانچہ جس کو کافر کہا جارہا ہے، وہ اگر مسلمان ہو تو کافر کہنے کا وبال خود اسی کہنے والے کی طرف لوٹتا ہے، لہذا کسی بھی شخص کو بلادلیل شرعی کافر کہہ دینا اور اس کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بنا لینا سخت گناہ اور حرام ہے، اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
مشکوۃ شریف میں ہے:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے"۔(مشکاۃ المصابیح )
صحیح مسلم کی روایت ہے: حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا"۔(صحیح مسلم: حدیث نمبر: ٢١٩ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (1356/3، ط: المکتب الاسلامی)
عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایّما رجل قال لاخیہ کافر فقد باء بہا احدہما".
مرقاۃ المفاتیح: (55/9)
"قال الطیبی: لانہ اذا قال القائل لصاحبہ: یا کافر مثلا فان صدق رجع الیہ کملة الکفر الصادر منہ مقتضاہا، وان کذب واعتقد بطلان دین الاسلام رجعت الیہ ہذہ الکلمة ۔ "
صحیح البخاری: (باب فضل استقبال القبلة)
"قال علیہ السلام: من شہد أن لا إلہ إلا اللہ واستقبل قبلتنا وصلی صلاتنا وأکل ذبیحتنا فہو المسلم".
شرح الشفاء: (500/2)
"إدخال کافرٍ في الملة الإسلامیة أو إخراج ملةٍ عنہا عظیم في الدین".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی