عنوان: کیا حکومت کے لگائے گئے ٹیکس دینا ضروری ہیں؟(1837-No)

سوال: السلام علیکم، حضرت ! سوال یہ ہے کہ کیا ٹیکس چوری کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے ؟

جواب: 1) کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لیے مستحقین کی امداد، سڑکوں، پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر، بڑی نہروں کا انتظام، سرحد کی حفاظت کا انتظام ، فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو مشاہرہ دینے کے لیےاور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہےاوران وسائل کو پورا کرنے کے لیےنبی کریمﷺ، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہد اور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھا اور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے،مثلاً:
1۔ ’’خمسِ غنائم‘‘ یعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعدباقی پانچواں حصہ۔
2۔ مالِ ِ فییٔ یعنی وہ مال جو بغیر کسی مسلح جدو جہد کے حاصل ہو۔
3۔ ’’خمسِ معادن‘‘یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ۔
4۔ ’’خمسِ رکاز ‘‘  یعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو، اس کا بھی پانچواں حصہ۔
5۔ غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ اموال جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔
6۔ ’’ضوائع‘‘  یعنی لا وارث مال ، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ۔
لیکن آج کے دور میں جب کہ یہ اسباب و وسائل  ناپید ہوگئے ہیں توان ضروریات اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیےٹیکس کا نظام قائم کیا گیا، کیوں کہ اگر حکومت ٹیکس نہ لے تو فلاحی مملکت کا سارا نظام خطرہ میں پڑ جائے گا، البتہ اس میں شک نہیں کہ مروجہ ٹیکس کے نظام میں کئی خرابیاں ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح بعض مرتبہ غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ ہوتی ہے، اور یہ کہ وصولی کے بعد بےجا اسراف اور غیر مصرف میں ٹیکس کو خرچ کیا جاتا ہے، لیکن بہرحال ٹیکس کے بہت سے جائز مصارف بھی ہیں، اس لیے امورِ مملکت کو چلانے کی خاطر حکومت کے لیے بقدرِ ضرورت اور رعایا کی حیثیت کو مدِّ نظر رکھ کر ٹیکس لینے کی گنجائش نکلتی ہے۔
لہذا اگر یہ ٹیکس ظالمانہ نہ ہو اور اس کو وصول کرکے اس کے صحیح مصرف میں خرچ کیا جاتا ہو، تو ایسا ٹیکس دینا ضروری ہے، اسے چھپانا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ: (190/1، ط: دار الفکر)
(فصل ما يوضع في بيت المال أربعة أنواع)
(الأول) زكاة السوائم والعشور،
وما أخذه العاشر من تجار المسلمين الذين يمرون عليه، ومحله ما ذكرنا من المصارف.
(والثاني) خمس الغنائم والمعادن والركاز ويصرف اليوم إلى ثلاثة أصناف اليتامى والمساكين وابن السبيل.
(والثالث) الخراج والجزية، وما صولح عليه بنو نجران من الحلل وبنو تغلب من الصدقة المضاعفة، وما أخذه العاشر من المستأمنين وتجار أهل الذمة كذا في السراج الوهاج. وتصرف تلك إلى عطايا المقاتلة وسد الثغور وبناء الحصون ثمة، وإلى مراصد الطريق۔۔۔الخ
(والرابع) اللقطات هكذا في محيط السرخسي.

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (6/42، ط: دار السلاسل)
ويقول الشاطبي: إنا إذا قررنا إماما مطاعا مفتقرا إلى تكثير الجند لسد حاجة الثغور وحماية الملك المتسع الأقطار، وخلا بيت المال، وارتفعت حاجات الجند إلى ما لا يكفيهم فللإمام إذا كان عدلا أن يوظف على الأغنياء ما يراه كافيا لهم في المال، إلى أن يظهر مال بيت المال، ثم إلى الإمام النظر في توظيف ذلك على الغلات والثمار وغير ذلك، وإنما لم ينقل مثل هذا عن الأولين في العصور الإسلامية الأولى لاتساع بيت المال في زمانهم بخلاف زماننا، فإن القضية فيها وجوه أخرى، ووجه المصلحة هنا ظاهر، فإنه لو لم يفعل الإمام ذلك بطلت شوكة الإمام، وصارت دياره عرضة لاستيلاء الكفار

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1576 Jul 24, 2019
kia hukomat / government ke / kay lagai / lagaye gai tax dena zarori hai / hain, Is it necessary to pay taxes levied by the government?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Miscellaneous

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.