سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کاروبار کی جگہ پر اکثر لوگ آتے ہیں کہ میں مستحق ہوں، زکوۃ دے دو، پھر اللہ اور رسول کے واسطے دیتے ہیں اور ایک نے تو یہاں تک آکر کہا کہ قیامت میں میرا گلا پکڑ لینا، تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ بعض دفعہ مدارس والے آتے ہیں، کچی سلپ لیکر کہ کوہستان میں مدرسہ ہے یا بشام میں، تو انکی تحقیق کی جائے یا کیا کیا جائے؟
آپ میرے رہنمائی فرمادیں، اللہ آپکو جزائے خیر عطا کرے .
جواب: اگر مانگنے والوں کی ظاہری حالت دیکھ کر یا ان کے بتانے سے اطمینان ہو یا غالب گمان ہو کہ یہ مستحقِ زکوۃ ہیں، تو ان کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی، لیکن گداگری کو پیشہ بنانے والوں کو زکوة نہیں دینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (352/2، دار الفکر)
أما لو تحرى فدفع لمن ظنه غير مصرف أو شك ولم يتحر لم يجز حتى يظهر أنه مصرف فيجزيه في الصحيح خلافا لمن ظن عدمه، وتمامه في النهر.
وفيه: واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري كذا في المبسوط حتى لو ظهر غناه لم يعد.
الدر المختار: (354/2، ط: دار الفکر)
(ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی