سوال:
قرآن کریم کے بعض مقامات کو غلط پڑھنے سے کلمہ کفر صادر ہوجاتا ہے، کیا اس سے ایمان پر کچھ اثر پڑے گا؟
جواب: واضح رہے کہ عربی زبان میں زبر، زیر یا پیش کی غلطی سے معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے، بعض اوقات اس قدر معنی بدل جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص معنی کو سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر غلط تلفّظ کرے اور وہ یہ کہے کہ میرا یہی عقیدہ ہے تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوگا،
لیکن اگر کوئی سبقت لسانی بلا ارادہ غلط پڑھنے کی وجہ سے لاعلمی میں آیت کا غلط تلفظ کرے اور اس کو معنی بگڑنے کا علم نہ ہو تو ایسی غلطی سے وہ کافر نہیں ہوگا۔
نیز کفر اور اسلام کا فیصلہ کرنا بہت ذمہ داری کا متقاضی ہے، اس لیے اس معاملے میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
منح الروض الازھر فی شرح الفقہ الاکبر: (ص: 451)
"ثم اعلم انہ اذا تکلم بکلمۃ الکفر عالماً بمعناھا ولا یعتقد معناھا، لکن صدرت عنہ من غیر اکراہ، بل مع طواعیۃ فی تأدیتہ، فانہ یحکم علیہ بالکفر بناء علی القول المختار عند بعضھم من ان الایمان ھو مجموع التصدیق والاقرار، فبإجرائھا یتبدل الاقرار بالانکار، أما اذا تکلم بکلمۃ ولم یدر انھا کلمۃ کفر، ففی فتاویٰ قاضیخان حکایۃ خلاف من غیر ترجیح حیث قال: قیل: لایکفر لعذرہ بالجھل، وقیل یکفر ولا یعذر بالجھل، أقول: والاظھر الأول الا اذا کان من قبیل مایعلم من الدین بالضرورۃ فانہ حینئذ یکفر ولا یعذر بالجھل".
رد المحتار: (224/4)
"وفی الفتاوی الصغری: الکفر شیٔ عظیم فلا اجعل المؤمن کافرا متی وجدت روایۃ انہ لا یکفر اھ وفی الخلاصۃ وغیرھا: اذا کان فی المسألۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنعہ فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم زاد فی البزازیۃ الا اذا صرح بارادۃ موجب الکفر فلا ینفعہ التأویل ح… والذی تحرر انہ لا یفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ اختلاف ولوروایۃ ضعیفۃ فعلی ھذا فأکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لایفتی بالتکفیر فیھا…الخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی